دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
بچے کا نام "محمد فاروق" رکھنا کیسا ہے؟ ایک صاحب کہتے ہیں کہ یہ نام رکھنا درست نہیں ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بچے کا نام "محمد فاروق " رکھنا نہ صرف جائز بلکہ ان شاء اللہ عزوجل باعث برکت ہے،کیوں کہ یہ نام لفظ محمد اور لفظ فاروق کا مجموعہ ہے اور محمد تو آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے اور فاروق خلیفہ دوم، امیر المومنین، حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا لقب ہے، جس کا مطلب ہے: "حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا" تو معنیٰ اور نسبتوں کے اعتبار سے بلاشبہ یہ نام رکھنا شرعاً پسندیدہ ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ یہ نام رکھنا درست نہیں ہے، وہ غلط کہتا ہے، ایسے شخص کو اپنی اٹکل سے شرعی مسائل بیان کرنے سے باز آنا چاہیے۔ البتہ! بہتر یہ ہے کہ اولاً بچے کا نام صرف محمد رکھیں پھر اگر چاہیں تو پکارنے کے لئے کوئی اور نام مثلاً فاروق رکھ لیں۔
فیروز اللغات میں ہے ”فاروق:۔۔۔ حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا لقب۔“ (فیروز اللغات، صفحہ 978، فیروز سننز، لاہور)
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي و تبركا باسمي كان هو و مولوده في الجنة
ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 422، حدیث: 45223، مؤسسة الرسالة، بیروت)
رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے
قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب و إسناده حسن
ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمایا: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 9، صفحہ 688، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے ”بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے
تسموا بخياركم
ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4457
تاریخ اجراء: 28 جمادی الاولٰی 1447ھ / 20 نومبر 2025ء