دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
محمد ماجد نام رکھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بچے کا نام "محمد ماجد" رکھنا شرعاً جائز ہے "ماجد" کا معنی ہے: ”بزرگی والا“۔یہ اگرچہ اللہ پاک کے صفاتی ناموں میں سے ہے، مگر یہ اسمائے مشترکہ یعنی ان ناموں میں سے ہے کہ، جن کا مخلوق پر بھی اطلاق جائز ہے، لہذا یہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اس سے کے ساتھ لفظ محمد لگانے میں بھی حرج نہیں۔
لفظ ”ماجد“ کے معنی کے متعلق المنجد میں ہے ”الماجد: بزرگی والا“ (المنجد، صفحہ826، خزینہ علم و ادب، لاہور)
اسماء الحسنی کے متعلق حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیثِ پاک میں اللہ تبارک وتعالی کا ایک نام ”الماجد (یعنی: بزرگی والا)“ بھی مذکور ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد2، صفحہ707، حدیث: 2288، المکتب الاسلامی، بیروت)
ایک روایت کے مطابق "ماجد"نام کے صحابی بھی ہیں:
جامع المسانید لابن کثیر میں ہے
”(جابر بن ماجد الصدفي) قال ابن يونس: وفد على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وشهد فتح مصر. قال ابن الأثير: وقد اختلف في حديثه.فروى الأوزاعي، عن قيس بن جابر الصدفي، عن أبيه، عن جده، عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: (سيكون بعدي خلفاء ومن بعد الخلفاء أمراء۔۔الخ) قال: ورواه ابن لهيعة، عن عبد الرحمن بن قيس بن جابر عن أبيه عن جده فعلى رواية الأوزاعي يكون الصحابي ماجدا، وعلى رواية ابن لهيعة الصحابي جابر ابن ماجد“ (جامع المسانید والسنن، ج 2، ص 66، 67، دار خضر، بیروت)
حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نے اپنے بیٹے کا نام "ماجد علی"رکھاتھا:
بہار شریعت کے حصہ 19 کے مصنف حضرت علامہ سید ظہیر احمد زیدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اسی حصہ 19 کے شروع میں ذکر فرماتے ہیں: ” الحاج عبدالمصطفی ازھری: آپ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کے تیسرے صاحبز ادے ہیں، آپ کا نام اعلیٰ حضرت نے ''عبدالمصطفیٰ'' رکھا جب کہ حضرت صدر الشریعہ نے آپ کا نام ''ماجدعلی'' رکھا تھا۔ سنِ شعور کو پہنچ کر جب آپ درسِ نظامی سے فارغ ہوئے اور شعر گوئی کا ذوق پیدا ہوا آپ نے اپنا تخلص ''ماجد'' رکھا۔ یہ وہی نام ہے جو آپ کے والدِ محترم حضرت صدر الشریعہ نے ابتداء ً آپ کا رکھا تھا۔" (بہار شریعت، ج 3، حصہ 19، ص 915 تا 918ملتقطا، مکتبۃ المدینہ)
جو نام اللہ عزوجل کے ساتھ خاص نہیں ہیں، ان کے متعلق درمختار میں ہے
”و جا ز التسمیۃ بعلی و رشید و غیرھما من الاسماء المشترکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی“
ترجمہ: اسما ئے مشترکہ میں سے علی، رشید اور ان کے علاوہ نام رکھنا جائز ہے اور (ان اسماء سے )جو معنی اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الحظر وا لاباحۃ، جلد9، صفحہ689 , 688، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4482
تاریخ اجراء:05جمادی الثانی1447ھ/27نومبر2025ء