راحم نام کا مطلب اور راحم علی نام رکھنا کیسا؟

بچے کا نام راحم علی رکھنا

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-3552

تاریخ اجراء:08شعبان المعظم1446ھ/07فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

   بیٹے کا نام  راحم علی (Rahim Ali) رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ بیٹے کا پورا نام "محمد راحم علی رضوان (Muhmmad Rahim Ali Rizwan)  ہوگا۔ اس کے  متعلق رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 راحم علی نام رکھنادرست ہے۔راحم کامطلب ہے: "رحم کرنے والا" اور علی، یہ امیرالمومنین مولائے کائنات حضرت سیدناعلی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کانام ہے ۔لہذاراحم علی، نام رکھنادرست ہے۔ البتہ! بہتریہ ہے کہ اولاصرف محمدنام رکھ لیاجائے کہ حدیث پاک میں محمدنام رکھنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے اورظاہریہ ہے کہ یہ فضیلت تنہامحمدنام رکھنے کی ہے، پھرپکارنے کے لیے "علی" رکھ لیجیے کہ یہ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کانام ہے اور حدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کافرمایاگیاہے اوراس سے امیدہے کہ ان کی برکت بچے کے شامل حال ہوگی۔ اورپھرچاہیں تودونوں نام ملاکر "محمدعلی" کردیا جائے۔

   فیروزاللغات میں ہے"راحم": رحم کرنے والا۔"(فیروز اللغات، ص737، فیروز سنز)

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے: ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“(بہار شریعت، جلد3،حصہ15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

محمدنام رکھنے کی فضیلت:

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے ”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“ ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں، یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم