
مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3417
تاریخ اجراء: 20جمادی الاخریٰ 1446ھ/23دسمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا بیٹے کا نام ’’سیان “ رکھنا مناسب ہے، اس کے معنی کیا ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
’’سِیان“ لفظ کا معنی ہے: دانائی، ہوشیاری۔ اس معنی کے اعتبار سے’’سِیان“ نام رکھنا تو جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ بچے کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نام یا صحابہ کرام کے مبارک نام یا دیگر نیک و صالح بزرگوں کے نام پر رکھیں کہ اس کی برکات بھی حاصل ہوں ۔
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے”تسموا بخياركم “ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو ۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية ، بيروت)
فیر وز اللغات میں ہے: ’’سِیان: دانائی، ہوشیاری۔ (فیروز اللغات ،صفحہ 825 ،مطبوعہ لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم