دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا سمیہ نام رکھنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! سمیہ نام رکھنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر ناموں میں سے ہے کیونکہ یہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی صحابیہ رضی اللہ تعالی عنھا کا نام ہے، اور حدی اچھوں کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
الفردوس بماثور الخطاب میں ہے ”تسموا بخياركم“ ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)
"اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ" میں ہے
”سمية أم عمار بن ياسر، وهي سمية بنت خباط، كانت أَمَةً لأبي حذيفة بن المغيرة المخزومي، وكان ياسر حليفًا لأبي حذيفة، فزوجه سمية، فولدت له عمارًا، فأعتقه أبو حذيفة. وكانت من السابقين إلى الإسلام، وقيل: كانت سابع سبعة في الإسلام“
ترجمہ: حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ ان کا نام سمیہ بنت خباط ہے، وہ ابو حذیفہ بن مغیرہ المخزومی کی لونڈی تھیں، اور حضرت یاسر رضی اللہ تعالی عنہ ابو حذیفہ کے حلیف (معاہدہ والے) تھے، ابو حذیفہ نے ان کا نکاح حضرت یاسر سے کر دیا، پس حضرت سمیہ کے بطن سے حضرت عماررضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے، تو ابو حذیفہ نے انہیں (حضرت عمار کو) آزاد کر دیا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے پہلے اسلام قبول کرنےوالوں میں سے تھیں، کہاگیاہے کہ وہ ساتویں نمبرپراسلام لانے والی تھیں۔ (أسد الغابة في معرفة الصحابۃ، جلد7، صفحہ152، دار الكتب العلمية، بیروت)
سمیہ، سماء کی تصغیر ہے، جیسا کہ مراصد الاطلاع میں ہے ”(سمیۃ) تصغیر سماء“ ترجمہ: سمیہ، سماء کی تصغیر ہے۔ (مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ والبقاع، جلد2، صفحہ741، مطبوعہ: بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4405
تاریخ اجراء: 13جمادی الاولی1447 ھ/05نومبر2025 ء