تمیم نام کا مطلب نیز یہ نام رکھنا کیسا؟

بچے کا نام تمیم رکھنا

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میرے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے، میں اس کا نام "تمیم" رکھنا چاہتا ہوں، تو مجھے یہ بتائیں کہ "تمیم" کا معنی کیا ہے؟ اور کیا میں اپنے بیٹے کا یہ نام رکھ سکتا ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

لفظِ "تمیم" کا معنی ہے: مضبوط۔ پورے قد و قامت والا۔" لہذا آپ اپنے بچے کا یہ نام رکھ سکتے ہیں، بلکہ یہ نام رکھنا مستحب ہے کیونکہ تمیم کثیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا نام ہے مثلاً حضرت تميم بن اوس، حضرت تمیم بن اسید وغیرہما؛ اور احادیث طیبہ میں ہمیں اچھے اور نیک لوگوں کے ناموں پر نام رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، نیز امید ہے کہ نیک لوگوں کی برکتیں بچے کے شامل حال ہوں گی۔

المنجد میں ہے ”التمیم: مضبوط۔ پورے قدو قامت والا۔“ (المنجد، صفحہ 89، مطبوعہ: لاہور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ58، حدیث:2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں تمیم نام کے متعدد صحابہ کرام کا تذکرہ موجود ہے، جن میں سے چند یہاں مذکور ہیں: ”تمیم بن اسید۔۔۔ تمیم بن اوس۔۔۔ تمیم بن حارث۔۔۔ تمیم بن حجر الاسلمی (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، جلد 1، صفحہ 487 تا 489، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4494

تاریخ اجراء: 09 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 01 دسمبر 2025ء