انگوٹھی سے حمل پر اثرات کی شرعی حیثیت

انگوٹھی کے حمل پر اثر ات سے متعلق تفصیل

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا گھر میں کسی کے ہاتھ میں انگوٹھی ہونے سے حمل پہ کچھ اثر ہوتا ہے؟ گھر والے سب کو منع کر رہے ہیں کہ کوئی بھی چاندی کی یا کسی اور دھات کی انگوٹھی نہ پہنے کہ اس سے حمل میں نقصان ہوگا۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حمل کے دوران عورت خودیا اس گھر کا کوئی فرد اگر شریعت کے مطابق جائز انگوٹھی پہننا چاہے، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، نیز اسے حمل کے لیے برا گمان کرنا اور یہ سمجھناکہ اس کی وجہ سے حمل کو نقصان ہوگا، اس کی کوئی حقیقت نہیں، یہ محض بدشگونی ہےاوربدشگونی لینامنع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’لا طیرۃ‘‘

ترجمہ:بد شگونی کوئی چیز نہیں۔ (صحیح بخاری، جلد 5، صفحہ 2171، حدیث 5425، مطبوعہ: دمشق)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’لیس منا من تطیر‘‘

ترجمہ: جس نے بد شگونی لی، وہ ہم میں سے نہیں (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں۔) (المعجم الکبیر،رقم الحدیث 355، جلد 18، صفحہ 162، مطبوعہ: قاہرہ)

سنن ابی داؤد میں ہے

"العیافۃ والطیرۃ والطرق من الجبت"

ترجمہ: شگون لینے کے لیے پرندہ اُڑانا، بد شگونی لینا، اور طَرْق(یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 3907، جلد 4، صفحہ 16، مطبوعہ: بیروت)

العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"و سئل ما يكون السؤال عن النحس، و السعد، و عن الأيام، و الليالي التي تصلح لنحو السفر و الانتقال ما يكون جوابه؟ (أجاب) من يسأل عن النحس و ما بعده لا يجاب إلا بالإعراض عنه و تسفيه ما فعله و يبين له قبحه و أن ذلك من سنة اليهود لا من هدى المسلمين المتوكلين على خالقهم"

ترجمہ: حضرت علامہ آفندی علیہ الرحمۃ سے منحوس و مبارک اور دنوں اور راتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ سفر و دیگر کاموں کے لیے منحوس یا بابرکت ہوتے ہیں؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواب دیا کہ جو شخص کسی چیز کے منحوس ہونے کے بارے میں سوال کرے تو اسے جواب نہ دیا جائے، بلکہ اس سے اعراض کیا جائے اور اس کے فعل کوجہالت کہا جائے اور اس کی برائی کو بیان کیا جائے کیونکہ یہ (کسی چیز کو اپنے حق میں منحوس سمجھنا) یہودیوں کا طریقہ ہے مسلمانوں کا طریقہ نہیں جو اپنے خالق عزوجل پر توکل رکھتے ہیں۔ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، جلد 2، صفحہ 333، دار المعرفہ، بیروت)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا، جس کاخلاصہ یہ ہےکہ سابقہ مکان میں بچے کی ولادت کومنحوس سمجھتے ہیں اس لیے اس کے لیے علیحدہ سے مکان تعمیرکرتے ہیں، اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے اس کی خرابیاں بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا: (ترجمہ) "اس وہم کی بنیادشیطانی ہے مزیدیہ کہ اس میں بدفالی وبدشگونی والی گمراہی تھی شامل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: بری فال نکالنا اور اس پر کار بندہونا مشرکین کا طریقہ اور دستور ہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 265، 266، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3953

تاریخ اجراء: 26 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 23 جون 2025 ء