
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر کسی نے کوئی چیز چرالی ہو اور پھر وہ واپس کرنا چاہتا ہو لیکن اس کے مالک کا پتہ نہ ہو تو وہ کیا کرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
چوری کرنا ناجائز و حرام کام ہے، جس سے سچے دل کے ساتھ توبہ کرنا لازم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو چیز چوری کی وہ چیز واپس لوٹانا لازم ہے، جس کی چیز ہے اس کو دے، وہ نہ رہے تو اس کے ورثہ کو دے، اور اگر کسی کا پتا نہ چل پائے تو فقیر شرعی پر صدقہ کردے۔
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: "جومال رشوت یا تغنی یا چوری سے حاصل کیا، اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پر تصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کا لگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کا نہیں۔" (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 551، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3913
تاریخ اجراء: 14 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 11 جون 2025 ء