اعلانیہ گناہ کی توبہ کرنے کا شرعی حکم

کیا علانیہ گناہ کی توبہ علانیہ ضروری ہے

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2081

تاریخ اجراء: 02 رجب المرجب 1446 ھ/ 03 جنوری  2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

کیا علانیہ گناہ کی توبہ بھی علانیہ ہی ضروری ہے؟اگر علانیہ گناہ کی توبہ خفیہ طور پر کر لی جائے، تو کیا توبہ قبول ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بے شک اللہ پاک سچی توبہ قبول فرمانے والا ہے اور توبہ کب سچی کہلائے گی جس سے وہ قبول ہو،اس کا خیال ضروری ہے،اور بےشک ندامت بھی توبہ ہے  مگر اس  سے مراد یہ ہے کہ ندامت سچی توبہ کرنے پر ابھارتی ہے اور توبہ سچی تب ہوتی ہے جب اس کے ارکان (یعنی اعترافِ جرم،شرمندگی اور آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ) پورے کیے جائیں اور  حدیث پاک میں یہ اصول دیا گیا ہے کہ  اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہے۔

نیزعلانیہ گناہ کے دو تعلق ہیں:ایک بندے اور خدامیں کہ اللہ پاک کی نافرمانی کی،دوسرا بندے اور خلق میں کہ مسلمانوں کے نزدیک وہ گناہگار ٹھہرا۔یونہی اس گناہ سے توبہ کے  بھی دو رخ ہیں:ایک جانبِ خدا، اس کا رکنِ اعظم بصدقِ دل اس گناہ سے ندامت ،فی الحال اس کا ترک اور اس کے آثار کامٹانا اورآئندہ کبھی نہ کرنے کا  صحیح عزم، یہ سب باتیں سچی پشیمانی کو لازم ہیں اور دوسرا جانبِ خلق کہ جس طرح ان پر گناہ ظاہر ہوا اور اس بندے سے متعلق اس کے گناہ کے مطابق شرعی احکام اختیار کرنے کا حکم ہوا،اسی طرح ان پر اس کی توبہ ظاہرہو کہ ان کے دل اس کے بارے میں بدگمانی سے صاف ہوں ، اور گناہ علانیہ کے لئے شرع نے توبہ علانیہ کاحکم دیا ہے،لہٰذا ان تمام جہتوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔

بندہ غور کرے کہ اگر گناہ پر سچی ندامت ہے تو جیسے لوگوں کے سامنے گناہ کرتے ہوئے نہیں شرمایا  تھا تو اب ان کے سامنے اپنی خطا کا اقرار کرنے اور توبہ کرنے سے کیوں شرما رہا ہے اعلانیہ گناہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلانِ گناہ دوہرا گناہ بلکہ اس گناہ سے بھی زیادہ برا گناہ ہے کہ بے باکی و دلیری  اور نفس کی شرکشی ہے،اس  بےباکی کا علاج بھی اعلانیہ توبہ میں ہے۔

مزید وضاحت کے لیے فتاویٰ رضویہ جلد 21 سے فتویٰ نمبر 17 پڑھ لیجئے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم