
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
گانا سننے سے نفاق پیدا ہوتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب بیان کردیجئے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
علمائے کرام نے فرمایاکہ یہاں نفاق سے نفاق عملی مرادہے یعنی ظاہر، باطن کے خلاف ہو، ظاہر نیکیوں میں مشغول اورباطن گناہوں میں مشغول، اور اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ جوگانے سنے گا، وہ ظاہری اعتبارسے گناہ نہ بھی کرے بلکہ نیک اعمال کرے، تب بھی باطن میں اس کا دل مزامیر و موسیقی (جو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو ناپسند ہیں، ان) کی لذت ومحبت میں منہمک رہے گا اور گانے سے جن گناہوں کی تحریک پیداہوتی ہے، ان کی طرف دل مائل رہے گا، ان کو اچھا سمجھے گا اور ان پر خوشی محسوس کرے گا، تو یوں ظاہرکے اعتبار سے وہ نیکیوں میں مشغول لیکن باطن کے اعتبار سے وہ گناہوں میں مشغول رہے گا، اور یہ نفاق والی صورت ہے۔
در مختار میں ہے
”قال ابن مسعود صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات“
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: لہو اور گانے کی آواز دل میں نفاق پیدا کرتی ہے جیسے پانی کھیتی پیدا کرتا ہے۔
مذکورہ عبارت میں موجود لفظ "نفاق" کے تحت رد المحتار میں ہے
”أي العملي“
ترجمہ: یعنی نفاق عملی پیدا کرتی ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 6، ص 348 ، 349، دار الفکر، بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے
”النفاق الشرعي و هو الاعتقادي الذي هو إبطان الكفر و إظهار الإسلام، و عرفي و هو العملي الذي هو إبطان المعصية و إظهار الطاعة“
ترجمہ: نفاق شرعی اور وہی نفاق اعتقادی ہے، اس سے مراد کفر چھپانا اور اسلام ظاہر کرنا ہے اور نفاق عرفی اور وہی نفاق عملی ہے، اس سے مراد معصیت چھپانا اور اطاعت ظاہر کرنا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 1، ص 127، دار الفکر، بیروت)
بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے
”عدم موافقة الظاهر للباطن والقول للفعل هذا هو نفاق العمل“
ترجمہ: ظاہر کی باطن سے موافقت نہ ہونا اور قول کی فعل سے موافقت نہ ہونا،یہی نفاق عملی ہے۔ (بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ، ج 3، ص 133، مطبعۃ الحلبی)
شمس الدین محمد بن احمد سفارینی حنبلی (متوفی 1188ھ) لکھتے ہیں:
”أساس النفاق أن يخالف الظاهر الباطن، و هذا المستمع الغناء لا يخلو أن ينتهك المحارم فيكون فاجرا أو يظهر النسك و العبادة فيكون منافقا فإنه متى أظهر الرغبة في الله و الدار الآخرة و قلبه يغلي بالشهوات و يلذع بنغمات الآلات و محبة ما يكره الله و رسوله من أصوات المعازف و ما يدعو إليه الغناء و بهيجه من قلبه كان من أعظم الناس نفاقا، فإن هذا محض النفاق“
ترجمہ: اور نفاق کی بنیاد یہ ہے کہ ظاہر، باطن کے مخالف ہو، اور یہ گانے سننے والا شخص دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا: یا تو وہ حرام کاموں کاارتکاب کرتا ہے، تو وہ فاجر ہوجاتا ہے، یا وہ عبادت و پرہیزگاری کا اظہار کرتا ہے، تو وہ منافق ہو جاتا ہے کیونکہ جب کوئی شخص اللہ تعالی اور آخرت کے معاملےمیں رغبت ظاہر کرتا ہے، جبکہ اس کا دل شہوات سے کھول رہا ہو اور ساز و آلات کی دھنوں اور مزامیر کی آوازوں کی محبت میں کہ جن کواللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم) ناپسند کرتے ہیں، اور گاناجس کام کی رغبت کا سبب بنتا ہے، اس کی محبت میں تڑپ رہا ہو، اور اس پر دلی خوشی محسوس کرتاہوتو ایسا شخص منافقوں میں سے سب سے بڑا منافق ہے، کیونکہ یہ سراسر نفاق ہے۔ (غذاء الالباب فی شرح منظومۃ الآداب، ج 1، ص 154، مؤسسة قرطبة، مصر)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3936
تاریخ اجراء: 19 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 16 جون 2025 ء