
مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3556
تاریخ اجراء: 09شعبان المعظم 1446ھ/08فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قرآن میں آیا ہے "وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ"( جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا)،دوسری طرف حدیث پاک میں آیا ہے کہ گنا ہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ جس گناہ سے سچی توبہ کر لی جائے کیا ان گناہوں پر بھی قیامت کے دن پکڑ ہوگی اور سوال کیا جائے گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی نہیں ! جو گناہ سچی توبہ یا اعمال صالحہ کے سبب مٹ چکے، قیامت کے دن ان کے متعلق نہ سوال کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی پکڑ ہوگی کیونکہ وہ کالعدم ہوچکے بلکہ بعض صورتوں میں توبہ کرنے والے کے گناہ مٹاکر اس کے بدلے نیکیاں دی جائیں گی ۔
مشکاۃ المصابیح میں حدیث پاک منقول ہے :” عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «التائب من الذنب كمن لا ذنب له“ ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ۔
اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے :” ای :في عدم المؤاخذة، بل قد يزيد عليه بأن ذنوب التائب تبدل حسنات“ ترجمہ : یعنی مواخذہ نہ ہونے میں بلکہ کبھی کبھار توبہ کرنے والے کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیا جاتا ہے ۔( مشکاۃ المصابیح و مرقاۃ المفاتیح ، ج 4، ص1636 ، حدیث 2363 ، مطبوعہ بیروت )
مراٰۃ المناجیح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :” توبہ سے مراد سچی اور مقبول توبہ ہے جس میں تمام شرائط جواز و شرائط قبول جمع ہوں کہ حقوق العباد اور حقوق شریعت ادا کردیئے جائیں،پھر گزشتہ کوتاہی پر ندامت ہو اور آئندہ نہ کرنے کا عہد۔اس توبہ سے گناہ پر مطلقًا پکڑ نہ ہوگی بلکہ بعض صورتوں میں تو گناہ نیکیوں سے بدل جائیں گے۔(مراٰۃ المناجیح ،ج 3 ،ص 378 ،379 ،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات )
فتاوی رضویہ میں امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کرفوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، رباسے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا “(فتاوی رضویہ، ج21،ص 121۔122، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم