
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میرا یہ سوال ہے کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں بندہ بھاری ہے، یا اس کا پاؤں بھاری ہے یا اس کا ہاتھ بھاری ہے، یہ دکان میں آئے گا تو سیل (یعنی دکان داری) اچھی نہیں ہوگی یا گھر میں آئے گا تو کوئی نہ کوئی نقصان ہوگا وغیرہ وغیرہ، تو اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہ سب باتیں جہالت ہیں، کیونکہ یہ بدشگونی سے تعلق رکھتی ہیں، اور اسلام میں بدشگونی اور نحوست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہذا! اللہ پاک کی ذات پر بھروسہ رکھیں اور ان باتوں کی طرف توجہ نہ دیں اور اس وہم کی بناپرکسی کی دل آزاری نہ کریں۔ تاہم! بعض اوقات کچھ لوگوں کی نظر لگ جاتی ہے، جس سے نقصان ہونے کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو یہ چاہیے کہ جب وہ کسی دوسرے کے مال و جان وغیرہ کسی شے کو جائز نظر سے دیکھے اور وہ اس کو اچھی لگے تو اس کےلیے دعائے برکت مثلا: "بارک اللہ" وغیرہ کلمات کہہ دےکہ حدیثِ پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ "جب تم کسی چیز کو پسند کرو تو اس کے لیے برکت کی دعا کرو۔" لیکن یہ یاد رہے کہ! نظر لگ جاناکوئی عیب نہیں، نظرتوماں کی بھی لگ جاتی ہے، اس لیے اگرکسی کی نظر لگ جاتی ہو تو بلا وجہ شرعی اس کی دل آزاری نہ کی جائے بلکہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے احتیاطی تدابیر اور وظائف وغیرہ اختیار کرتے رہا کریں جن کے ذریعے نظرِ بد سے بچا جا سکے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے
"أن النبي صلى الله عليه و سلم كان لا يتطير من شيء"
ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیتے تھے۔ (سنن أبي داود،کتاب الطب، ج 4، ص 19، الحدیث: 3920، المكتبة العصرية، بيروت)
فتاوی رضویہ شریف میں ایک درخت کو منحوس سمجھنے کے بارے سوال ہوا، تو شیخ الاسلام، اعلی حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً فرمایا: ”شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، شرع نے نہ اسے منحوس ٹھہرایا نہ مبارک۔“ (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 267، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نظر کے متعلق ہمیں یہ حکم ہے کہ جب ہم کسی اچھی چیز کو تعجب سےدیکھیں تو اس کےلیے برکت کی دعا کر دیں۔ چنانچہ المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
”عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف قال: رأى عامر بن ربيعة سهل بن حنيف و هو يغتسل، فعجب منه، فقال: بالله ما رأيت كاليوم مخبأة في خدرها - أو قال: فتاة في خدرها -، قال: فلبط به حتى ما يرفع رأسه، قال: فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه و سلم، فقال: هل تتهمون أحدا؟، فقالوا: لا يا رسول الله، إلا أن عامر بن ربيعة قال له كذا وكذا، قال: فدعاه، و دعا عامر بن ربيعة، فقال: سبحان الله علام يقتل أحدكم أخاه؟ إذا رأى منه شيئا يعجبه فليدع له بالبركة“
ترجمہ: حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ (باپردہ ستر ڈھانپ کر) غسل کر رہے تھے، تو انہیں دیکھ کر تعجب کیا اور کہا: "اللہ کی قسم! آج تک آپ کے جیسا حسن میں نے کبھی نہیں دیکھا، گویا پردے میں چھپی ہوئی کنواری لڑکی ہو۔" اس پر حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ گر پڑےیہاں تک کہ وہ اپنا سر بھی نہ اٹھا سکے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ نے فرمایا: "کیا تم کسی پر شک کرتے ہو؟" صحابہ نے عرض کیا: "نہیں، یا رسول اللہ!مگر عامر بن ربیعہ نے ان کے بارے میں یہ بات کہی تھی۔" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن ربیعہ کو بلایا اور فرمایا: "سبحان اللہ! تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے؟ جب کوئی کسی چیز کو دیکھے اور وہ اسے پسند آئے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔" (المعجم الكبير للطبراني، رقم الحدیث 5574، جلد 6، صفحہ 79، مطبوعہ القاھرۃ)
نظرِ بد کے متعلق مرآۃ المناجیح میں ہے "نظر لگ جانا عیب نہیں، نظر تو ماں کی بھی لگ جاتی ہے۔" (مرآۃ المناجیح، جلد 06، صفحہ 224، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3859
تاریخ اجراء: 25 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 23 مئی 2025 ء