کیا توریہ کرنا گناہ ہے؟

توریہ کرنے کا حکم

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-3567

تاریخ اجراء:16شعبان المعظم1446ھ/15فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   توریہ کرنا یعنی اگر کوئی پوچھے کہ آپ کل آئے تھے اور وہ بولے میں  آیا تھا، مراد یہ لے دو دن پہلے،  تو  کیا اس کو جھوٹ بولنے کا گناہ نہیں ہو  گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بلاحاجت توریہ کرنا، جائز نہیں، البتہ حاجت ہو تو جائز ہے، اگر بلاحاجت ہو گا تو جھوٹ کا وبال آئے گا۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے ويكره التعريض بالكذب إلا لحاجة كقولك لرجل كل فيقول أكلت يعني أمس فإنه كذب كذا في خزانة المفتين“ ترجمہ: بلاحاجت توریہ کرنا مکروہ ہے مثلاً تمہارا کسی آدمی کو کہنا کہ کھاؤ، اور وہ کہے میں نے کھا لیا یعنی کل تو اس نے جھوٹ بولا، یونہی خزانۃ المفتین میں ہے۔(فتاوی ھندیۃ، ج5، ص352، دار الفکر، بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے: توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہر معنی ہیں،  وہ غلط ہیں،  مگر اس نے دوسرے معنی مراد لیے،  جو صحیح ہیں، ایسا کرنا بلاحاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے۔ توریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کو کھانے کے لیے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھالیا۔ اس کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس وقت کا کھانا کھالیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے،  یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے۔(بہار شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 518، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم