
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زیدآڑھت کاکام کرتا ہے ،اس کے پاس لوگ اپنے باغات کے آم بیچنےکے لئےبھیجتے ہیں،تو وه آم فروخت کروانے پرعرف کے مطابق كميشن ليتا ہے ،اور اس کےساتھ مزید کچھ رقم آم کے مالکان کو بتائے بغیر اس کام کے لئے رکھ لیتا ہے کہ جن لوگوں کوآم فروخت کیے ہیں، ان آم کی پیٹیوں میں سے جوآم خراب نکلے، ان کےبدلے ان کو یہ رقم دوں گا اور اگر آم خراب نہ نکلے تو یہ رقم اگلے سال جن لوگوں کے آم خراب نکلیں گے،ان کو دوں گا،اپنی ذات پر اس کو خرچ نہیں کروں گا، مثلاً زید 5 لاکھ میں آم بیچتا ہے، 25 ہزار کمیشن رکھتا ہے اور 50 ہزار اضافی رکھ لیتا ہے، اور 4 لاکھ 25 ہزار مالکان کو دیتا ہے اور ان کو یہ بیان کرتا ہے کہ آپ کے پھل اتنے (4لاکھ ،25 ہزار)میں ہی فروخت ہوئے ہیں، زید کا ایسا کرنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شریعت کی رُو سے آڑھتی صرف اُجرتِ مثل(اس کام پر جتنی کمیشن منڈی میں رائج ہو) کا حقدار ہوتا ہے، اس سے زیادہ رقم رکھنااس کے لئے جائز نہیں ہوتی اور پھلوں کے مالکان کو بتائے بغیر یا جھوٹ بول کر اضافی رقم رکھنا ناجائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔زید پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس قبیح فعل سے توبہ کرے اور آئندہ بچنے کا پختہ ارادہ کرے، نیز زید پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ یہ اضافی رقم پھلوں کے مالکان تک پہنچائے۔
آم خریدنے والوں کو آم خراب نکلنے پر رقم دینے کا درست حل:آم خریدنے والوں کو خیارِ عیب حاصل ہونے (آم کی پیٹیوں میں سے خراب آم نکلنے)پر دی جانے والی رقم کے لئے زید کو شرعاً درست طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ آم کے مالکان کو بتا دے کہ آم خراب نکلنے پر رقم آپ نے ادا کرنا ہو گی،یا اس مَد میں،میں نے اتنی رقم رکھی ہے،جو آم خراب نہ نکلنے کی صورت میں قابلِ واپسی ہوگی ،تو یہ طریقہ شرعاً جائز ہے اور یہ بھی تب ہے کہ جب مالک کی ملکیت میں رہتے ہوئے خرابی پیدا ہوئی ہو،یہ نہیں کہ بیچنے کے بعد خریدار نے وقت پر مال نہیں اٹھا یااور اب خرابی پیدا ہوئی تو اس کا ذمہ دار، مالک ہرگز نہیں۔
جھوٹ بولنامنافقت کی علامت ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آیۃ المنافق ثلاث اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا ائتمن خان
ترجمہ: منافق کی تین علامتیں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے،(2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، (3) اور جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 01، صفحہ 56، مطبوعہ دار الطباعة العامرة، تركيا)
مسلمان کو دھوکہ دینے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْن)
ترجمہ کنزالایمان:فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے ،مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔ (القرآن الکریم، پارہ 1، سورۃ البقرۃ، آیت 09)
صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، المعجم الکبیرللطبرانی اور سنن ابی داؤد وغیر ہاکتبِ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لیس منا من غشنا
ترجمہ:وہ ہم میں سے نہیں ،جو ہمیں دھوکہ دے۔ (سنن ابی داؤد ، جلد 5، صفحہ 323، دار الرساله)
کسی مسلمان کا مال باطل طریقے سے حاصل کرنے کی ممانعت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾
ترجمہ کنز الایمان:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ۔ (القرآن الکریم، پارہ 2، سورۃ البقرہ، آیت نمبر 188)
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے:
والمعنی:لا یاکل بعضکم مال اخیہ بغیر حق ،فیدخل فی ھذا: القمار والخداع والغصوب ۔۔ ۔وغیر ذلک
ترجمہ:اور(اس آیت کا) معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھائے ،اس عموم میں جوا ،دھوکادہی اور غصب۔۔۔وغیرہ سب داخل ہیں۔ (تفسیر قرطبی، جلد 2، صفحہ 338، مطبوعہ دار الکتب، القاھرہ)
علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتے ہیں:
و الغدر حرام
ترجمہ: اور دھوکہ دینا حرام ہے۔ (المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی، جلد 2، صفحہ 363، مطبوعه دار الكتب العلمية، بيروت)
مشتری کو خیار عیب حاصل ہونے کے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ’’اگر بغیر عیب ظاہر کیے چیز بیع کردی، تو معلوم ہونے کے بعدواپس کرسکتے ہیں، اس کو خیار عیب کہتے ہیں، خیار عیب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وقتِ عقد یہ کہہ دے کہ عیب ہوگا، تو پھیر دینگے، کہا ہو یا نہ کہاہو،بہر حال عیب معلوم ہونے پر مشتری کوواپس کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ (بھار شریعت، جلد 2، حصہ 11، صفحہ 673، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR-0061
تاریخ اجراء: 27 صفر المظفر 1447 ھ /22 اگست 2025 ء