
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
یوٹیوب سے مونوٹائزیشن کے علاوہ پیسے کمانے کے کچھ طریقے، نیچے بیان کر دیے گئے ہیں ان کے حوالے سے شرعی رہنمائی فرما دیں کہ ان میں سے کون سا طریقہ حلال اور کون سا حرام ہے؟:
1- پہلا طریقہ
Brand sponsorship
اس میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ اپنی کمپنی یا اپنی کسی برانڈ کو پروموٹ کرنے کے لیے کچھ یوٹیوبر زکو پیسے دیتے ہیں کہ ہماری یہ برانڈ اپنی ویڈیو میں چلاؤ تاکہ ہماری سیل بڑھ سکے اور اس میں یوٹیوبرز کو کمیشن دیا جاتا ہے۔
2- دوسرا طریقہ
Affiliate marketing
اس طریقہ میں ایمازون یا کوئی ایسی ویب سائٹ، جس سے لوگ چیزیں خریدتے ہیں، ان کی پروڈکٹ کا لنک اپنی ویڈیوز میں دیا جاتا ہے اور جو لوگ لنک کے ذریعے چیزوں کو خریدتے ہیں تو ان میں سے یوٹیوبر کو کمیشن ملتا ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس کے لیے شرعی حدود و قیود کالحاظ رکھا جائے تو دونوں صورتوں میں کمیشن حاصل کرنا جائز ہوگا، مثلا:
(1)جس برانڈ یا پروڈکٹ وغیرہ کی تشہیر کی جارہی ہے، وہ شرعا جائز و حلال ہو۔
(2)تشہیر کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق ہو یعنی اشہتار میں بے پردگی اوربے حیائی والی تصویرنہ ہو، ساتھ میوزک وغیرہ نہ ہو اور جس ویڈیو پر تشہیر ہورہی ہے وہ ویڈیو بھی ناجائز معاملات سے پاک ہو۔
(3)برانڈ اور پروڈکٹ وغیرہ کی تعریف میں جھوٹ اور دھوکہ دہی وغیرہ نہ ہو۔
(4)اس طرح کے کام پر جتنی مقدار کمیشن لینے دینے کا وہاں پررواج ہو، اس سے زیادہ کمیشن مقررنہ کیاجائے۔
اگر اس طرح تمام شرعی حدود و قیود کی پاسداری کرتے ہوئے یہ معاملات کیے جائیں تو کمیشن لینا، دینا جائز ہوگا، وجہ یہ ہے کہ کسی کی چیز بکوانے میں محنت کرنے پر کمیشن لینا شرعا جائزہے اور محنت جس طرح فیزیکلی طریقے سے تشہیر وغیرہ کرنے میں ہوتی ہے، اسی طرح یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے تشہیر وغیرہ کرنے میں بھی ہوتی ہے، لہذا فیزیکلی صورت کی طرح اس صورت میں بھی محنت کرکے کمیشن حاصل کرنا، جائزہے۔
ردالمحتارمیں ہے
''قال فی البزازیۃ: إجارۃ السمسار و المنادی والحمامی والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ''
ترجمہ: بزازیہ میں فرمایا: دلال، منادی، حمامی، دستاویز لکھنے والے کا اجارہ اور ہر اس چیز کا اجارہ جس میں نہ وقت مقرر ہوتا ہے اور نہ عمل مقرر ہوتا ہے، یہ سب لوگوں کی حاجت کی وجہ سے جائزہیں۔ (رد المحتار، باب اجارہ فاسدہ، ج06، ص47، دار الفکر، بیروت)
دلال کے عقد کے حوالے سے محیط برہانی میں واقعات الناطفی اور رد المحتار میں تاتار خانیہ کے حوالے سے ہے
واللفظ للثانی ''وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیھم وفی الحاوی سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرۃ التعامل وکثیر من ھذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام''
ترجمہ: دلال کے اجارے میں اجرت مثل واجب ہے۔ اور لوگوں کا اس طرح طے کرنا کہ ہر دس دینار میں اتنے درہم دیئے جائیں گے تو یہ حرام ہے۔ امام محمد بن سلمہ سے دلال کی اجرت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ کثرت تعامل کی وجہ سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ اصل کے اعتبار یہ اجارہ فاسد ہے اور اس میں بہت ساری صورتیں ناجائز تھی لیکن لوگوں کی حاجت کی وجہ سے علماء نے اسے جائز قرار دیا جس طرح کہ حمام میں داخل ہونا۔ (رد المحتار، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج6، ص63، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے "اور اگر بائع کی طرف سے محنت و کوشش و دوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا۔" (فتاوی رضویہ، ج19، ص453، رضافاونڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4342
تاریخ اجراء: 16ربیع الثانی1447 ھ/10اکتوبر2025 ء