گیم پلیئرز کو ڈھونڈنے کا کام سکھانا کیسا؟

گیم کھیلنے والوں کو تلاش کرنے کا کام سکھانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک پاکستانی شخص نےکمپنی بنائی ہے، جس کے لئے وہ لوگوں کو تیارکر رہا کہ لوگ ہمارے پاس آئیں،ہم لوگوں کو بیرون ملک گیمز کھیلنے والے لوگوں کو تلاش کرنا سکھائیں گے۔ کمپنی یہ کام فری سکھائےگی،اس کام کو سیکھنے کے بعد سیکھنے والےکو ایک لنک دیا جائے گا، جس کے ذریعہ سے وہ بیرون ملک گیمز کھیلنے والے لوگوں کو تلاش کرےگا اور جتنے لوگ اس شخص کے لنک کے ذریعہ سے گیمز کھیلیں گے،کمپنی ہر شخص کے بدلے ساڑھے پانچ ڈالر( 5.50 ڈالر) اس شخص کو دے گی ، اب سوال یہ ہے کہ کمپنی کا یہ کام سکھانا کیسا؟اور لوگوں کا ان لنکس کے ذریعہ سے کمائی کرنا کیسا ؟

نوٹ: سائل نے بیان کیا کہ یہ گیمز بے پردگی،میوزک ،جوا ،وغیرہ غیر شرعی اُمور پر بھی مشتمل ہوتی ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ہماری شریعت اسلامیہ کےمہذّب و مذَہّب (یعنی سنہری) اُصول و ضوابط گناہوں کا مکمل انسداد اور روک تھام کرتے اور بدی کےلئے کوئی رخنہ باقی نہیں چھوڑتے، ان اُصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گناہ کرنا تو دور کی بات اس پر رضامندی اور اس میں تعاون بھی ناجائز و گناہ ہے،نیز مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کی بھی معاصی پر اعانت (مدد)جائز نہیں کہ کفار بھی مسلمانوں کی طرح فروعات (شرعی احکامات) کے مکلّف ہیں،ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ایسے ہی حرام ہیں،جیسے مسلمانوں پر حرام ہیں، لہٰذاسوال میں بیان کی گئی صورت میں کسی کمپنی کا ایسے افراداور لنک تیار کرنا ،جن کے ذریعہ سے لوگ (خواہ مسلم ہوں یا غیرمسلم) بے پردگی، میوزک، جُوا اور مقاصدِ شریعت کے خلاف اُمور پر مشتمل گیمز کھیلیں، یہ یقیناً گناہ پر رضا مندی،گناہ کی دعوت دینا اور اس میں تعاون کرنا ہے اور یہ سب ا عمال شرعاً ناجائز و گناہ ہیں۔

نیز ایسے لنکس کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ناجائز و حرام ہےکہ ان لنکس کے ذریعہ سےمعاصی پر مدد کی جاتی ہے اور معاصی پر مدد کرنا گناہ ہے اور گناہ کے کام پر اجارہ شرعاًجائز نہیں، لہٰذا ایسے لنکس کے ذیعہ سے حاصل ہونے والی کمائی حلال نہیں ہوگی۔

گناہ پر تعاون نہ کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

(وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ)

ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ (القرآن الکریم،پارہ 6،سورۃ المائدۃ، آیت 2)

مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت امام ابو بکر احمد بن علی جَصَّاص رازی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:370ھ/ 980ء) لکھتے ہیں:

نهي عن معاونة غيرنا على معاصی اللہ تعالى

ترجمہ: (اس آیتِ مبارکہ میں)اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 381، مطبوعہ دار الكتب العلميه، بیروت)

گناہ کی دعوت دینےسےگناہ گار ہونے کے متعلق صحیح مسلم،جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ اورمسنداحمد وغیرہم کتب حدیثِ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:

والنظم للمسلم:  من دعا الى ضلالة كان عليه من الاثم مثل آثام من تبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا

ترجمہ:جو کسی کو امرِ ضلالت کی طرف بلائے ،جتنے اس کے بلانے پرچلیں ،ان سب کے برابر اس پرگناہ ہو گا اور اس سے ان کے گناہوں میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ (صحیح مسلم، جلد 4، صفحہ 2060، دار احياء التراث العربی)

محیط برہانی، بحر الرائق شرح کنز الدقائق، فتح القدیر اورفتاوٰی عالمگیری میں ہے:

و النظم للاول: الاعانۃ علی المعاصی و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر

ترجمہ:گناہوں اور فسق و فجور کے کاموں پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(المحیط البرھانی، جلد 08، صفحہ 312، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت)

گناہ پرمعاونت کسی کی جائز نہیں،خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان،چنانچہ امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ / 1921 ء) لکھتے ہیں: ”معاملت مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائزہے، جبکہ اس میں نہ کوئی اعانت کفریا معصیت ہو نہ اضرار اسلام وشریعت،ورنہ ایسی معاملت مسلم سے بھی حرام ہے، چہ جائیکہ کافر،

قال تعالٰی: (وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ)

گناہ وظلم پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 433، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں،چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

الراجح علیہ الاکثر من العلماء علی التکلیف لموافقتہ لظاھر النصوص فلیکن ھذا ھو المعتمد

ترجمہ:راجح وہ ہےجو اکثر علمائےکرام کا مؤقف ہے کہ کفار (احکام شرع کے) مکلف ہیں، اس لیے کہ نصوص کے ظاہر کے موافق یہی ہے، لہٰذا اسی پر اعتماد کرنا چاہیے۔(نسمات الاسحار، صفحہ 61، مطبوعہ ادارۃ القرآن ،کراچی)

امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ صحیح یہ ہے کہ کفار بھی مکلّف با لفروع ہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 382، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

محرمات کی حرمت کفارکے حق میں بھی ثابت ہوگی،چنانچہ ردالمحتار علی درمختارمیں ہے:

لأن الصحيح من مذهب أصحابنا أن الكفار مخاطبون بشرائع، وهي محرمات، فكانت ثابتة فی حقهم أيضا

ترجمہ:ہمارے مذہب کا صحیح قول یہ ہے کہ کفار احکام شرع کے مخاطب ہیں اور وہ محرمات ہیں،لہٰذا یہ حرمت ان کے حق میں بھی ثابت ہو گی۔(رد المحتار، کتاب البیوع ، جلد 5، صفحہ 228، دار الفکر بیروت)

معاصی پر اجارہ کے ناجائز ہونے کے متعلق شمس الاَئمہ،امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ / 1090ء) لکھتے ہیں:

و لا تجوز الاجارۃ علیٰ شیئ من الغناء و النوح و المزامیر و الطبل و شیئ من اللھو لأنہ معصیۃ و الاستئجار علی المعاصی باطل ، فان بعقد الاجارۃ یستحق تسلیم المعقود علیہ شرعاً ولا یجوز ان یستحق علی المر أ فعل بہ یکون عاصیاً شرعاً

ترجمہ: اور گانے باجے ،نوحہ،مزامیر،طبل بجانے اور کسی بھی لہو و لعب کے کام پر اجارہ جائز نہیں،کیونکہ یہ گناہ ہے اور گناہوں پر اجارہ کرنا باطل ہے،کیونکہ عقد اجارہ کے سبب معقود علیہ (جس چیز پر اجارہ کیا گیا ہے) کو سپرد کرنے کا شرعاً استحقاق ثابت ہوجاتا ہے اور یہ جائز نہیں کہ کسی شخص پر ایسے فعل کا استحقاق ثابت ہو جس سے وہ شرعاً گنہگار ہوجائے۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 16، صفحہ 38، دار المعرفہ، بیروت)

ناجائز کام کرنے پرملنے والی اجرت کےحرام ہونے کےمتعلق علامہ شیخی زادہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1078ھ / 1667ء) لکھتے ہیں:

لا یجوز اخذ الاجرۃ علی المعاصی کالغناء و النوح و الملاھی۔۔۔ و ان اعطاہ الاجر و قبضہ لایحل لہ

ترجمہ:گناہ کے کاموں پر اجرت لیناجائز نہیں ،جیسےگانےباجے،نوحہ اور تمام لہوو لعب کے کام۔۔۔ اور اگر کسی نے اجرت دی اور اس نے قبضہ کرلیا تو وہ اجرت اس کے لیے حلال نہیں۔ (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، جلد 02، صفحہ 384، مطبوعہ دار احياء التراث العربی)

امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ’’حرام فعل کی اجرت میں جوکچھ لیاجائے ،وہ بھی حرام کہ اجارہ نہ معاصی پرجائزہے، نہ اطاعت پر۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 187، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: OKR-0056

تاریخ اجراء: 23 صفر المظفر 1447 ھ / 18 اگست 2025 ء