دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت(دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے علا قے میں گندم پیسنے والے پسائی میں بطور اجرت پیسوں کے ساتھ (پیسنے کے لیے دی ہوئی گندم میں سے)آٹا بھی لیتے ہیں ۔ مثلاً: 40کلوگندم کی پسائی50 روپے لیتے ہیں اور ساتھ ڈیڑھ کلو آٹا بھی نکالتے ہیں اور اگر آٹا نکالنے سے منع کیا جائے ،تو پھر اجرت کے طور پر 150 روپے لیتے ہیں ،ان دونوں میں سے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
گندم کی پسائی میں اجرت کے طور پر اُسی گندم میں سےآٹا لینا اورپسوانے والے کا اس طرح پہلے سے طے کر کے آٹا دینا دونوں ناجائز ہیں کہ کسی شخص کے کام میں سے اس کی اجرت طے کرنا ،اجارہ فاسد ہوتا ہے ۔فقہ کی اصطلاح میں اس طرح اجارہ طے کرنے کو قفیزِ طحان کہا جاتا ہے،جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ،لہٰذا گندم کی پسائی کی اجرت میں اُسی گندم میں سے آٹا نہیں دے سکتے (جبکہ پہلےسے یہ طے ہو کہ اسی گندم میں سے آٹا دیا جائے گا)،بلکہ روپے پیسےیا کوئی دوسری چیزاجرت میں طے کی جائے ۔ہاں اگر پسوانے سے پہلے اسی گندم میں سے اجرت نکال کر دے دی،تو یہ جائز ہے اور دوسرا جائز طریقہ یہ ہے کہ پسائی کی اجرت مثلاً دو کلو آٹا دینا پہلے طے کر لے اور یہ نہ کہے کہ اسی گندم کے آٹے میں سے دوں گا اور پھر اگر بعد میں اُسی آٹے میں سے دے دیا ،تو یہ بھی جائز ہے۔
قفیز طحان سے متعلق حدیث پاک میں ہے:
عن ابی سعید قا ل :نھی عن قفیز الطحان
ترجمہ: حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قفیز طحان سے منع فرمایا۔(مسند ابی یعلی ،جلد2 صفحہ 301، دار المأمون للتراث ، دمشق)
قفیز طحان کے فاسد ہونےسے متعلق درمختار میں ہے:
و لو دفع غزلاً لآخر لینسجہ لہ بنصفہ ای : بنصف الغزل او استاجر بغلاً لیحمل طعامہ ببعضہ او ثوراً لیطحن برہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکل لانہ استاجرہ بجزء من عملہ و الاصل فی ذلک نھیہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قفیز الطحان والحیلۃ ان یفرز الاجر اولاً او یسمی قفیزاً بلا تعیین ثم یعطیہ قفیزاً منہ فیجوز
تر جمہ: اگر ایک شخص نے دوسرے کوکپڑا بُننے کے لیے دھاگا دیا کہ وہ اس کے نصف یعنی نصف دھاگے کے بدلے کپڑا بنے گا یا غلہ اٹھا نے کے لیے خچر دیا کہ وہ اس غلے میں سے کچھ غلہ دے گا یا گندم پیسنے کے لیے بیل دیا کہ وہ اس گندم میں سے کچھ آٹا دےگا،تو ان تمام میں اجارہ فاسد ہے ،کیونکہ اس نے دوسرے شخص کو اس کے عمل میں سے بعض حصے پر اجیر کیا اور اس (اجیر کے عمل میں سے اجرت دینے کے ناجائز ہونے )میں اصل حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا قفیز طحان سے منع فرمانا ہے اور(جو گندم پسوانی ہے، اس میں سے اجرت دینے کا) حیلہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی اجرت الگ کر کے دے دے یا متعین کیےبغیر چندقفیز اجرت کے طور پر طے کرے اور پھر (جو گندم پسوائی ہے ) اس میں سے دے ،تو جائز ہے ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار ،کتاب الاجارہ، جلد 9، صفحہ 97،مطبوعہ کوئٹہ)
اس سے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’ اجارہ پر کام کرایا گیااور یہ قرار پایا کہ اُسی میں سے اتنا تم اُجرت میں لے لینا یہ اجارہ فاسد ہے مثلاً: کپڑا بُننے کے ليے سوت دیا اور یہ کہہ دیا کہ آدھا کپڑا اُجرت میں لے لینا یا غلہ اُٹھا کر لاؤ اُس میں سے دوسیر مزدوری لے لینا یا چکی چلانے کے ليے بیل ليے اور جو آٹا پیسا جائے گااُس میں سے اتنا اُجرت میں دیا جائے گایوہيں بھاڑمیں چنے وغیرہ بھنواتے ہیں اور یہ ٹھہرا کہ اُن میں سے اتنے بھنائی میں دئیے جائیں گے ، یہ سب صورتیں نا جائز ہیں۔ ان سب میں جائز ہونے کی صورت یہ ہے کہ جو کچھ اُجرت میں دینا ہے، اُس کو پہلے سے علیحدہ کردے کہ یہ تمہاری اُجرت ہے مثلاً سوت کو دوحصہ کرکے ایک حصہ کی نسبت کہا کہ اس کا کپڑا بُن دو اور دوسرادیا کہ یہ تمھاری مزدوری ہے یا غلہ اُٹھانے والے کو اُسی غلہ میں سے نکال کردےدیا کہ یہ مزدوری ہے اور یہ غلہ فلاں جگہ پہنچادے۔ بھاڑوالے پہلے ہی اپنی بھنائی نکال کر باقی کو بھونتے ہیں،اسی طرح سب صورتوں میں کیا جاسکتا ہے۔ دوسری صورت جو از کی یہ ہے کہ مثلاً کہہ دے کہ دوسیر غلہ مزدوری دیں گے یہ نہ کہے کہ اس میں سے دیں گے ،پھر اگر اُسی میں سے دےدے جب بھی حرج نہیں۔ ‘‘(بہار شریعت، جلد 3، حصہ14، صفحہ149، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-1675
تاریخ اجراء:04محرم الحرام1441ھ/04ستمبر2019