جوئے کی مشین والا ریسٹورینٹ کرائے پر لینا

غیر مسلم سے جوئے کی مشین والے ریسٹورنٹ کو کرائے پر لینے کا شرعی حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے غیر مسلم سے ریسٹورنٹ کرائے پر لیا، اس نے یہ شرط رکھی کہ جوئے والی مشین اس سے ہٹائی نہیں جائے گی، یہ یہیں رکھی رہے گی کیونکہ اس مشین کا مخصوص کنٹریکٹ ہوا ہوتا ہے۔ کرایہ دار کا اس مشین کے چلانے میں کوئی دخل نہیں ہوگا کیونکہ یہ آٹومیٹک ہے جس میں پیسے ڈال کر جوا کھیلا جاتا ہے اور مشین خود ہی کام کرتی ہے، اس سے پیسے نکالنے اور ڈالنے کا کام بھی مالک ہر ماہ خود دیکھے گا۔ اب یہ ریسٹورنٹ ٹھیک چل رہا ہے اور ظاہر ہے غیر مسلم اس مشین پر جوا بھی کھیل جاتے ہیں۔ مہینے کے بعد اس مشین سے نکلنے والے پیسوں میں سے مالک اس کا حصہ تقریباً 60 - 65 یورو رکھتا ہے جو کہ ہر ماہ اسے دے جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا اس شرط کو قبول کرتے ہوئے کنٹریکٹ کرنا جائز تھا؟ نیز ان پیسوں کا کیا کیا جائے جو مالک اسے دیتا ہے؟ کیا انہیں لینا جائز ہے؟

نوٹ: کرایہ دار کا مشین کے ساتھ تو تعلق نہیں، البتہ جوا کھیلنے والے اکثر اپنے کیش کا چینج اس سے لیتے ہیں تاکہ مشین میں ڈال کر جوا کھیل سکیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بلا شبہ جوا کھیلنا کھلوانا ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے، قوانین شریعت کی رو سے اگر جوئے کی مشین نصب رکھنے کے سلسلے میں مسلم کرایہ دار کا کچھ بھی عمل دخل ہوگا، مثلاً اسے چلانے میں، اسے مینج کرنے میں، اس کے لیے ٹوکن دینے میں یا خاص اس کے لیے کیش کا چینج دینے وغیرہ میں، تو یہ سراسر ممنوع و ناجائز ہے؛ کیونکہ یہ براہ راست جوا کھیلنے کے گناہ پر معاونت ہے جو خود ناجائز و گناہ ہے، اس لیے کہ غیر مسلم بھی فروعی شرعی احکام کے مکلف ہوتے ہیں اور ہمیں گناہ پر کسی کی مدد کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ البتہ اگر واقعی مسلم کرایہ دار کا اس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں یعنی مالک دکان نے کرایہ داری میں سے اسے مستثنی کر رکھا ہے اور اس کے تمام معاملات وہ خود ہی دیکھتا ہے تو اس میں مسلمان کے لیے مضائقہ نہیں؛ کیونکہ اس مشین کا لگوانا، رکھنا اور چلانا غیر مسلم مالک دکان کا ذاتی فعل ہے، جس کا وبال مسلم کرایہ دار پر نہیں۔ نیز اس صورت میں غیر مسلم کی طرف سے ملنے والی رقم مسلمان کے حق میں جوئے کی نہیں بلکہ مباح ہوگی، جسے مال مباح سمجھ کر لینا جائز ہے؛ کہ غیر مسلم سے جو مال بغیر دھوکہ دہی کے اس کی رضا مندی کے ساتھ حاصل ہو وہ مسلمان کے لیے حلال ہوتا ہے اگرچہ عقد فاسد کے ذریعے ملے۔ البتہ اگر کسی قسم کے فتنے یا تنفیر مسلمین کا خدشہ ہو تو اس سب سے بچنا بہتر ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ- قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘- وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ-﴾

ترجمہ کنز العرفان: تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔ (پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت 219)

اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”اس آیت میں شراب اور جوئے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔... جوا کھیلنا حرام ہے، جوا ہر ایسا کھیل ہے جس میں اپنا کل یا بعض مال چلے جانے کا اندیشہ ہو یا مزید مل جانے کی امید ہو۔ شطرنج تاش، لڈو، کیرم، بلیئرڈ، کرکٹ وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 383 - 385، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾

ترجمہ کنز العرفان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ (پارہ 6، سورۃ المائدہ، آیت 2)

امام ابوبکر احمد بن علی قاضی جصاص حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 370ھ / 980ء) لکھتے ہیں:

نهي عن معاونة غيرنا على معاصي اللہ تعالى

ترجمہ: (مذکورہ آیت مبارکہ میں) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں پر دوسروں کی مدد کرنے سے ممانعت کی گئی ہے۔ (أحكام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 381، دار الكتب العلمية، بيروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”معصیت پر اعانت خود ممنوع و معصیت (ہے)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 149، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 970ھ / 1562ء) لکھتے ہیں:

ان الكفار مخاطبون بالحرمات، و هو الصحيح من مذهب أصحابنا

ترجمہ: کفار محرمات کے مخاطب (مکلف) ہیں، اور یہی ہمارے اصحاب احناف کے مذہب سے صحیح قول ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، كتاب البيع، باب البيع الفاسد، جلد 6، صفحہ 77، دار الكتاب الإسلامي)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”مذہب معتمد میں کفار خود بھی مخاطب بالفروع ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 317، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

علامہ افتخار الدین طاہر بن احمد بن عبد الرشید حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 542ھ/ 1148ء) فرماتے ہیں:

و لو استأجر العرصة دون البناء يجوز

ترجمہ: اور اگر کسی شخص نے صحن کو بغیر (اس گھر کی) عمارت کے کرایہ پر لیا، تو یہ جائز ہے۔ (خلاصة الفتاوی، کتاب الاجارات، جلد 3، صفحہ 109، مطبوعہ کوئٹہ)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

إذا أجر دارا و سلمها فارغة إلا بيتا كان مشغولا بمتاع الاجر أو سلم إليه جميع الدار ثم انتزع بيتا منها من الدار رفع عن الأجر بحصة البيت

ترجمہ: جب کسی شخص نے مکان کرائے پر دیا اور اسے خالی حالت میں حوالے کر دیا، سوائے ایک کمرے کے جو آجر کا سامان رکھنے کی وجہ سے مشغول تھا، یا اس نے پورا مکان کرایہ دار کے سپرد کر دیا پھر (بعد میں) گھر کا ایک کمرہ اس سے واپس لے لیا تو کرایہ میں سے اس کمرے کے حصے کے مطابق کمی کی جائے گی۔ (خلاصة الفتاوی، کتاب الاجارات، جلد 3، صفحہ 104، مطبوعہ کوئٹہ)

علامہ عبد الرحمن بن محمد شیخی زاده داماد آفندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1078ھ / 1667ء) لکھتے ہیں:

و يجوز للمسلم أخذ مال الحربي برضاه

ترجمہ: ایک مسلمان کے لیے حربی کافر کا مال اُس کی رضا مندی کے ساتھ لینا جائز ہے۔ (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، كتاب البيوع، باب الربا، جلد 2، صفحه 90، دار إحياء التراث العربي)

امام كمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن الہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 861ھ / 1456ء) لکھتے ہیں:

ان ما لهم مباح و إطلاق النصوص في مال محظور، و إنما يحرم على المسلم إذا كان بطريق الغدر فإذا لم يأخذ غدرا فبأي طريق يأخذه حل بعد كونه برضا

ترجمہ: حربی کافروں کا مال مباح ہے، اور نصوص (جو مالِ غیر کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، ان کا) اطلاق مال ممنوع کے متعلق ہے، اور مسلمان پر (حربی کافر کا مال) اسی صورت میں حرام ہوتا ہے جب وہ دھوکے سے لیا جائے، پس جب دھوکے سے نہ لے تو جس طرح بھی حاصل کرے، حلال ہے جبکہ اس کا فر کی رضامندی سے ہو۔ (فتح القدیر، كتاب البيوع، باب الربا، جلد 7، صفحہ 39، دار الفکر، بیروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”بلاوجہ کسی کا مال لے لینا کہ بالاتفاق حرام ہے، مال معصوم میں ہے جو کہ مسلمان یا ذمی یا مستامن کا مال ہے، ان کے غیر کا مال کہ بلا غدر ملے، خصوصاً جو خود اس کی رضا سے ہو، اس کی حرمت کی کوئی وجہ نہیں، اگرچہ بلا وجہ محض بلکہ بنام وجہ فاسد و ناجائز مثل ربا و قمار وغیرہما ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 512، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”جو مال غیر مسلم سے کہ نہ ذمی ہو نہ مستامن بغیر اپنی طرف سے کسی غدر اور بدعہدی کے ملے، اگرچہ عقود فاسدہ کے نام سے اسے اسی نیت سے، نہ نیت ربا وغیرہ محرمات سے، لینا جائز ہے اگرچہ وہ دینے والا کچھ کہے یا سمجھے کہ ا س کے لیے اس کی نیت بہتر ہے نہ کہ دوسرے کی، لکل امرئ ما نوی (یعنی ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی)، پھر بھی جس طرح برے کام سے بچنا ضرور ہے، برے نام سے بچنا بھی مناسب ہے، ایاک و بالسوء الظن (یعنی بد گمانی سے بچو)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 325، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-818

تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1447ھ / 21 جولائی 2025ء