کام پر جائے بغیر تنخواہ لینا کیسا؟

کام پر جائے بغیر تنخواہ لینا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میرا مفتیان کرام سے سوال ہے کہ :تین بھائی ہیں، جن میں سے ایک بھائی ایک سرکاری کمپنی میں بطورِ ہیڈ کام کرتا ہے اور اس نے اپنے باقی دونوں بھائیوں کو اپنے انڈر کام پر رکھا ہوا ہے، لیکن اس نے اپنے بھائیوں سے یہ کہا ہوا ہے کہ آپ لوگ کام پر نہ آؤ ،میں سنبھال لوں گا۔ اب جو دونوں بھائی ہیں، وہ کسی دن کام پر نہیں جاتے مگر تنخواہ ان کی ہر مہینے کی مکمل آ رہی ہے۔ تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا وہ دونوں بھائی جو کام پر نہیں جاتے، ان کا تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ کمپنی کا کام تو دوسرا بھائی کرتا ہے۔ لیکن یہ ہے کہ کمپنی کو کوئی شکایت نہیں کیونکہ ایک بھائی کمپنی کو دوسرے بھائیوں کی طرف سے بھی کام مکمل کر کے دے رہا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں اگر ان لوگوں کا کمپنی میں مخصوص وقت کا اجارہ ہے ،تو ایسی صورت میں یہ لوگ کمپنی کے اجیر خاص ہیں۔ اور اجیر خاص پر تسلیمِ نفس لازم ہوتا ہے یعنی جو وقت اس کے کام کے لیے مقرر کردیا گیا ہو، اس وقت میں مقرر ہ مقام پر حاضر رہنا اور سونپا ہوا کام کرنا ضروری ہوتا ہے،اجیر خاص جس دن پورے وقت میں حاضر نہ رہے، یا حاضر ہو کر سپرد کردہ کام چھوڑ کر اپنا ذاتی کام کرے،یاویسے ہی کام ہونے کے باوجود کام نہ کرےاور بیٹھا رہے،تو ان سب صورتوں میں اس دن کی،یا کم وقت دیا توجتنا وقت کم دیااس کی اجرت کا وہ مستحق نہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں جتنے دن دونوں بھائی کمپنی سے غیر حاضر رہیں گے یا وہاں حاضر تو ہوں مگر کام کے باوجود کام نہ کریں اور بیٹھے رہیں، تو ان کے لیے اتنے دنوں اور اتنے وقت کی کٹوتی کروانا لازم ہے، مکمل تنخواہ لینا جائز نہیں اور وہ رقم بھی ان کے لیے حلال نہیں ہوگی، اگر لے لی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ کمپنی کو واپس کریں۔

نیز ایک بھائی جوکام کرے گا اور اس میں جووقت صرف کرگا تووہ دوسرے بھائیوں کاکام اوروقت نہیں کہلائے گاکیونکہ اس بھائی کابھی وقت کااجارہ ہے تواس وقت میں اس اس کاوقت اوراس کے منافع مستاجر (مالک) کی ملکیت میں ہیں، تواس وقت میں جووہ کام کرے گا،وہ دوسرے بھائیوں کی طرف سے نہیں ہوسکتا اور جووہ وقت دے گاوہ بھی دوسرے بھائیوں کی طرف سے وقت دینانہیں کہلا سکتا۔

نیز جوبھائی کمپنی میں بطور ہیڈ کام کرتا ہے، تو جب وہ کمپنی اس کی ذاتی نہیں بلکہ سرکاری کمپنی ہے، تو وہ اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ کسی ملازم کو گھر بیٹھنے کی اجازت دے، اور اس کے کمپنی سے چھٹیاں کرنے کے باوجود اس کی حاضری شمار کرتا رہے اور ان دنوں کی چھٹی کرنے والے کو تنخواہ بھی دلاتا رہے، ایسا کرنے کی وجہ سے یہ بھائی بھی گناہ گار ہوا، اس پر بھی توبہ لازم ہے۔

امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”مدرسین و امثالہم اجیر خاص ہیں، اور اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیم نفس لازم ہے، اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگر چہ کام نہ ہو، مثلا مدرس وقت معہود پر مہینہ بھر برابر حاضر رہا، اور طالب علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا، مدرس کی تنخواہ واجب ہو گئی، ہاں اگر تسلیم نفس میں کمی کرے مثلا بلا رخصت چلا گیا، یا رخصت سے زیادہ دن لگائے، یا مدرسہ کا وقت چھ گھنٹے تھا، اس نے پانچ گھنٹے دئے، یا حاضر تو آیا لیکن وقت مقرر خدمت مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یا دوسرے شخص کے کام میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہو گئی، یونہی اگر آتا اور خالی باتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ طلبہ حاضر ہیں اور پڑھاتا نہیں کہ اگرچہ اجرت کا م کی نہیں تسلیم نفس کی ہے، مگر یہ منع نفس ہے نہ کہ تسلیم، بہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہوگی۔ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 506، رضا فاؤنڈیشن، لاہور(

ایک اور  مقام پر فرماتے ہیں: ”بخلاف اجیر خاص کہ اس کا وقت بکا ہوا ہے، اس وقت میں اسے حرام ہے کہ بے مرضی مستاجر کام سے انکار کرے اور اگر کام نہ ہو اور وقت دے تنخواہ پائے گا۔ اور وقت نہ دے تو نہ پائے گا (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 519، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4336

تاریخ اجراء: 23 ربیع الآخر 1447ھ / 17 اکتوبر 2025ء