
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری
عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1087
تاریخ اجراء: 17صفر المظفر1445 ھ/04ستمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اجارہ صحیح ہونے کے لیے
ضروری ہے کہ اجرت و تنخواہ کام کرنے
سے پہلے مقرر اور متعین کر لی جائے، اس میں جہالت نہ ہو جبکہ
پوچھی گئی صورت میں کام کرنے سے پہلے اجرت معلوم و
متعین نہیں کی
گئی بلکہ وہ مجہول ہے ،معلوم
نہیں کہ کس کی
کارکردگی کیسی ہو اور اس کے لیے کتنی اجرت
دینا چاہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں یہ
اجارہ جائز نہیں ہے۔
سیدی اعلیٰ
حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:” اجارہ جو امر جائز پر ہو وہ بھی اگر بے تعینِ اجرت ہو تو
بوجہِ جہالت اجارہ فاسدہ اور عقد حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 19،صفحہ 529، رضا
فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم