گورنمنٹ کی چھٹی کے دوران کام کرکے پیسے لینا

گورنمنٹ کی طرف سے چھٹی ملنے کے باوجود چوری کام پر جانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اس نومبر میں باپ بننے والا ہوں اور اسپین میں ایک قانون ہے کہ جب کوئی باپ بنتا ہے تو جاب سے چار ماہ کی چھٹیاں ملتی ہیں اور گورنمنٹ اس چار مہینے کی تنخواہ دیتی ہے تاکہ گھر بیٹھ کر بچے اور اس کی ماں کی دیکھ بھال کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ میں ایک ہول سیل دکان پر کام کرتا ہوں جہاں ہم دو افراد ہی کاؤنٹر پر ہوتے ہیں، اگر میں قانون کے مطابق ان چار مہینوں کی چھٹیاں حاصل کروں، تو کیا شرعاً میں ساتھ کام بھی جاری رکھ سکتا ہوں؟ اس لیے کہ میں دکان نہیں چھوڑنا چاہتا کیونکہ دوسرا لڑکا اکیلا ہو جائے گا اور ایسے ہمارا کام نہیں چلے گا تو کیا میں ساتھ اُدھر کام کر سکتا ہوں؟ اگر ہاں تو کیا اس کی اُجرت لے سکتا ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اسپین کے قانون کے تحت اولاد کی پیدائش پر والد کو جو چار ماہ کی رخصت دی جاتی ہے، اسے "Paternity Leave" کہتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ والد اپنے نوزائیدہ بچے (Newborn Baby) اور اس کی والدہ کی دیکھ بھال کے لیے بھر پور وقت گھر پر گزارے اور اسی لیے حکومت خود اس مدت میں ماہانہ سبسڈی (Subsidy) فراہم کرتی ہے تاکہ وہ شخص فارغ البال ہو کر یہ کام کر سکے۔ معتمد ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق جب ایک شخص یہ چھٹیاں اور سبسڈی حاصل کرتا ہے تو قانونی طور پر اس کے لیے کوئی اور جاب کر کے اس سے تنخواہ حاصل کرنا منع ہو جاتا ہے، جس کی خلاف ورزی کو سوشل سکیورٹی فراڈ تصور کیا جاتا ہے اور پکڑے جانے پر سزا یا جرمانے وغیرہ کی صعوبت برداشت کرنی پڑ سکتی ہے، لہذا ایسا کرنا شرعاً ممنوع و ناجائز قرار پائے گا؛ کیونکہ عام حکومتی قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزی کر کے اپنے آپ کو سزا اور ذلت و رسوائی پر پیش کرنا شرعاً جائز نہیں۔ نیز اس دوران بدستور جاب (Job) جاری رکھنا اور دوسری طرف حکومت سے سبسڈی بھی لیتے رہنا، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ آپ کام نہیں کر رہے، دھوکے کے زمرے میں آتا ہے اور غیر مسلم کو بھی دھوکہ دینا ناجائز ہے۔ اگر ضرورت ہو تو ماہرین کے مشورے کے ساتھ اس کے قانونی جائز حل کی طرف جایا جائے جو ہر ملک کے اعتبار سے مختلف ہوسکتا ہے۔

جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، مسند بزار اور مشکوٰۃ المصابیح وغیرہ میں ہے:

عن حذيفة قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه

ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کے لیے جائز نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کرے۔ (جامع الترمذی، ابواب الفتن، جلد 4، صفحہ 105، حدیث 2254، دار الغرب الإسلامي، بيروت)

المعجم الاوسط للطبرانی، الترغیب و الترہیب، مجمع الزوائد وغیرہ کی حدیث پاک میں ہے:

و اللفظ للاول ”من أعطى الذل من نفسه طائعا غير مكره فليس منا“

ترجمہ: جو شخص بغیر کسی مجبوری کے راضی خوشی اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرے، تو وہ ہم میں سے نہیں۔ (المعجم الأوسط للطبراني، باب الالف، جلد 1، صفحہ 151، حدیث 471، دار الحرمين، القاهرة)

علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 855ھ / 1451ء) لکھتے ہیں:

إذلال النفس حرام

ترجمہ: نفس کو ذلت پر پیش کرنا حرام ہے۔ (البنایة شرح الهدایة، کتاب النکاح، باب في الأولياء و الأكفاء، جلد 5، صفحہ 109، المطبعة الخيرية)

علامہ ابن عابدین سید محمد امین بن عمر شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

حرام أي إذلال النفس لنيل الدنيا

ترجمہ: دنیا حاصل کرنے کے لیے خود کو ذلیل کرنا حرام ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، كتاب الحظر و الإباحة، باب الاستبراء و غيره، جلد 6، صفحہ 384، دار الفکر، بیروت)

شیخ الاسلام و المسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہوگا؛ کہ ایسی بات کے لیے جر م قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لیے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

ان من الصور المباحۃ مایکون جرما فی القانون ففی اقتحامہ تعریض النفس للاذی و الاذلال و ھو لایجوز فیجب التحرز عن مثلہ

ترجمہ: ان صورتوں میں سے جو (شرعی طور پر) مباح ہوتی ہیں، بعض وہ ہیں جو قانون کے اعتبار سے جرم ہیں، پس ان میں ملوث ہونا خود کو اذیت اور ذلت کے لیے پیش کرنا ہے اور یہ جائز نہیں، لہذا اس جیسے کاموں (یعنی غیر قانونی حرکات) سے بچنا واجب ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 370، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ کی حدیث پاک میں ہے:

و اللفظ لابن ماجہ ”فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: ليس منا من غش“

ترجمہ: پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (سنن ابن ماجه، كتاب التجارات، باب النهي عن الغش، جلد 2، صفحہ 749، حدیث 2224، دار إحياء الكتب العربية)

مسند بزّار، المعجم الصغیر للطبرانی، کنز العمال وغیرہ کی حدیث پاک میں ہے:

و اللفظ للاول”عن أبي هريرة رضي اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم المكر و الخديعة في النار“

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مکر و فریب اور دھوکہ دہی جہنم میں (لے جانے والے کام) ہیں۔ (مسند البزار، جلد 16، صفحہ 303، حدیث 9517، مطبوعہ مدینہ منورہ)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں:

ان ترک الغدر و الغلول فریضۃ فانھما حرام

ترجمہ: دھوکہ دہی اور خیانت کو ترک کرنا فرض ہے؛ کیونکہ یہ دونوں حرام ہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 28، صفحہ 151، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”غدر (دھوکا دہی)و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 139، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اسپینش قانون میں ہے:

“La percepción del subsidio por paternidad es incompatible con el abono de salarios o retribuciones correspondientes al mismo período, como consecuencia del disfrute del permiso de paternidad por el nacimiento.”

یعنی: بچے کی پیدائش کے سلسلے میں پدری رخصت کے استعمال کے دوران وظیفے (Subsidy) کا حصول، اسی مدت کے متعلقہ تنخواہ یا کسی اور مالی معاوضے کی وصولی کے ساتھ قابلِ جمع نہیں۔

(BOE-A-2009-4724,Capítulo III, Artículo 23.9,El Ministro de Trabajo e Inmigración)

اسی میں ہے:

“Son infracciones muy graves: Actuar fraudulentamente con el fin de obtener prestaciones indebidas o superiores a las que correspondan, o prolongar indebidamente su disfrute mediante la aportación de datos o documentos falsos; la simulación de la relación laboral; y la omisión de declaraciones legalmente obligatorias u otros incumplimientos que puedan ocasionar percepciones fraudulentas.”

یعنی: یہ بہت سنگین (قانونی) خلاف ورزیاں ہیں: دھوکہ دہی سے کام لینا ایسی مراعات حاصل کرنے کے لیے جن کا مستحق نہ ہو یا جائز حق سے زیادہ مراعات لینے کے لیے، یا جھوٹے دستاویزات یا غلط معلومات فراہم کر کے ان مراعات سے فائدہ اٹھانے کی مدت کو بلا جواز بڑھانا: ملازمت کی جھوٹی نمائندگی کرنا اور قانونی طور پر لازم بیانات کو چھپانا یا دیگر ایسی خلاف ورزیاں کرنا جو دھوکہ دہی پر مبنی مالی فوائد کے حصول کا سبب بن سکیں۔

(BOE-A-2000-15060, Capítulo III, Artículo 26.1, Ministerio de Trabajo y Asuntos Sociales)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-834

تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر 1447ھ / 28 جولائی 2025ء