
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک عورت کا سوال ہے کہ کیا وہ بیوٹی پارلر میں کسٹمربھیج کر کمیشن لینے کا کام کرسکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
کسی کسٹمر کو دوکاندار کے ساتھ ملا کر پیسے کمانے کا کام بروکری کہلاتا ہے۔ اور شریعتِ مطہرہ میں اس کی اجازت موجود ہے۔ البتہ! بروکری کے ذریعے کمیشن لینے کی کچھ شرائط ہیں کہ جائز کام کے لیے بروکری کی جائے، بروکری کرنے والا واقعی محنت و کوشش کرے اوربھاگ دوڑ کرے، فقط کسی کو مشورہ دے کر کمیشن وصول نہ کرے، فریقین کے ساتھ کسی طرح کا دھوکہ نہ کرے، جھوٹ نہ بھولے، عرف کے مطابق کمیشن لے۔ اور اگر عورت یہ کام کرے تو اس کے لیے مزید تاکید یہ بھی ہوگی کہ اس کام کے لیے مردوں کے ساتھ میل جول نہ ہو، اور اس کام کے لیے بےپردہ گھومتی نہ رہے، یہ کام کرنے میں کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ لہذا اگر کوئی عورت ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز کام کے لیے کسی بیوٹی پارلر میں عورتیں بھیج کر کمیشن لیتی ہے تو یہ جائز ہے۔
بروکری کی اجرت اور دیگر شرائط کے متعلق امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگر چہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اُجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے، دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے مشورہ دینے کی، رد المحتار میں بزازیہ و ولوالجیہ سے ہے
الدلالۃ و الاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر، و ان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ
(محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو، اگر کسی نے ایک خاص شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو اتنا اجر دوں گا، اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے تو اس کو مثلی اجرت دینا ہوگی کیونکہ وہ اس خاطر چل کر لے گا کیونکہ چلنا ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہوتاہے۔) غمز العیون میں خزانۃ الاکمل سے ہے
اما لو دلہ بالکلام فلا شیئ لہ
(اگر صرف زبانی رہنمائی دے تو اس کے لئے کچھ نہیں۔) اور اگر بائع کی طرف سے محنت و کوشش و دوا دوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 452، 453، رضا فاونڈیشن، لاھور)
فتاوی رضویہ میں ہے ”یہاں پانچ شرطیں ہیں: (۱) کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصہ چمکے۔ (۲) کپڑے تنگ وچست نہ ہو جو بدن کی ہیأت ظاہر کریں۔ (۳) بالوں یا گلے یا پیٹ یاکلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہرنہ ہوتا ہو۔ (۴) کبھی نامحرم کے ساتھ کسی خفیف دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو۔ (۵) اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی مظنہ فتنہ نہ ہو۔ یہ پانچ شرطیں اگر جمع ہیں تو حرج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے تو حرام“ (فتاوی رضویہ،جلد 22، صفحہ 248، رضا فاونڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4019
تاریخ اجراء: 19 محرم الحرام 1447ھ / 15 جولائی 2025ء