شراب بیچنے والے کو دکان کرایہ پر دینا کیسا؟

شراب بیچنے والے کو دکان کرایہ پر دینے کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

شراب بیچنے والے کو دکان کرائے پر دینا شرعا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شراب بیچناسخت گناہ وحرام کام ہے لیکن اگرکوئی شخص کسی کودوکان کرائے پردے اوراس دینے سے اس کے حرام کام میں تعاون کی نیت نہ ہواورلینے والااس میں شراب بیچےاوراس کے سبب کوئی فتنہ بھی نہ ہو تو یہ اس کااپنافعل ہے،جس کاگناہ کرائے پردینے والے کے ذمے نہیں آئے گا۔ ہاں! اگر کرائے پردینے والا اس کے شراب  بیچنے والے کام میں اس کی مددکی نیت کرے تو ایسی صورت میں مالک دکان اپنی اس بری نیت کی سبب گناہ گار ہوگا۔ نیزاگردوکان ایسی جگہ ہے کہ  جہاں اس کااظہار ہمسایوں کی خرابی و ضرر کا باعث بنے گا تو یہ فتنے کا سبب ہونے کی وجہ سے گناہ کا کام ہوگا، لہذا ایسی صورت میں اپنی دوکان کرائے پر نہیں دے سکتا۔

اللہ پاک قرآن کریم میں  ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾

ترجمہ کنز الایمان: اور کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہ اُٹھائے گی۔ (پارہ 22، سورہ فاطر، آیت 18)

محیط برھانی میں ہے

"إذا استأجر الذميّ من المسلم داراً ليسكنها فلا بأس بذلك  لأن الإجارة وقعت على أمر مباح فجازت وإن شرب فیھا الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير، لم يلحق المسلم في ذلك شيء لأن المسلم لم يؤاجر لها إنما يؤاجر للسكنى، وكان بمنزلة ما لو أجر داراً من فاسق كان مباحاً، وإن كان يعصي فيها"

ترجمہ: اگر مسلمان اپنا گھر کسی ذمی کافر کو کرائے پر دے، تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ اجارہ ایک مباح کام یعنی رہائش کےلیے ہوا ہے، لہذا جائز ہے، اور  اگر وہ ذمی اُس گھر میں شراب پئے  یا صلیب کی پوجا کرے یا گھر میں خنزیر کو رکھے تو گھر کرائے پر دینے والے مسلمان کو  کوئی گناہ نہیں ہو گا، کیونکہ مسلمان نے اِن مقاصد کے لیے گھر کرائے پر نہیں دیا تھا، بلکہ  اُس نے تو صرف رہائش کے لیے دیا تھا، یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص کسی فاسق کو گھر کرائے پر دے، تو یہ جائز ہے، اگرچہ وہ فاسق اُس گھر میں گناہ کے کام کرے۔ (المحیط البرھانی، جلد 7، صفحہ 483، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ مسلمان اپنا مکان شراب بیچنے کے لئے اور شراب نوشی کے لئے کرایہ سے دے تو درست ہے یا نہیں؟ اور اس کی ایسی کمائی کا کھانا دوسرے مسلمان کے لئے درست ہے یا نہیں؟

تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: "مسلمان مکان کرایہ پر دے اس کی غرض کرایہ سے ہے، اور اعمال نیات پر ہیں، یہ نیت کیوں کرے کہ اس لئے دیتاہے کہ اس میں شراب نوشی و شراب فروشی ہو، ایسی حالت میں کرایہ اس کے لئےحلال اور اس کے یہاں کھانا کھانے میں حرج نہیں، ہاں جو اس حرام نیت کو شامل کرلے کہ وہ اب خود ہی گنہگار بنتا ہے، اور اگر وہ مکان ایسی جگہ واقع ہے جہاں ان مفاسد کا اظہار باعث ضرر  و خرابی ہمسائگان ہوگا، تو ناجائز، یہ باعث فتنہ ہوا، اور فتنہ حرام، بہرحال نفس  اجرت کہ کسی فعل حرام کے مقابل نہ ہو، حرام نہیں۔" (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 501، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3824

تاریخ اجراء: 14 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 12 مئی 2025 ء