غیر مسلم کو ٹیکسی میں اس کی عبادت گاہ تک لے جانا

مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کا غیر مسلم کو اس کی عبادت گاہ تک لے کرجانا

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کوئی مسلمان ٹیکسی ڈرائیور ہو اور اسے کوئی غیر مسلم کہے کہ مجھے چرچ یا کسی دوسری غیر مسلم کی عبادت گاہ چھوڑ دو، تو کیا وہ مسلمان اسے چھوڑ سکتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کا کسی غیر مسلم کو اس کے عبادت خانے لے جانا جائز نہیں ہے، کہ یہ گناہ پر مدد کرنا ہے، جس سے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں منع فرمایا ہے، اور جو کام ناجائز ہو اس پر اجارہ بھی ناجائز ہوتا ہے۔

اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَان) ترجمہ کنز العرفان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔ (القرآن، سورۃ المائدۃ، پارہ6، آیت: 2)

 اس آیت کے تحت امام ابو بکر احمد الجصاص علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

"نهي عن معاونة غيرنا على معاصی اللہ تعالى"

ترجمہ: آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 429، مطبوعہ: کراچی)

حاشیۃ الشلبی علی التبیین میں ہے

"قالوا فيمن له أب نصراني أعمى، وهو مسلم لا بأس بأن يقوده من البيعة إلى المنزل ولا يجوز للابن أن يقوده من المنزل إلى البيعة؛ لأن ذلك إعانة على المعصية"

ترجمہ: فقہائے کرام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا، جس کا باپ عیسائی ہو اور اندھا ہو اور بیٹا مسلمان ہو کہ وہ اپنے باپ کو گرجے سے گھر تک لاسکتا ہے لیکن بیٹے کے لیے یہ جائز نہیں کہ باپ کو گھر سے گرجے تک لے کر جائے کیونکہ یہ گناہ پر مدد دینا ہے۔ (حاشیۃ الشلبی علی التبیین، کتاب الاشربۃ، ج06، ص49، مطبوعہ: قاھرہ)

بہارِ شریعت میں ہے ”نصرانی نے مسلمان سے گرجے کا راستہ پوچھا یا ہندو نے مندر کا، تو نہ بتائے کہ گناہ پر اعانت (یعنی مدد) کرنا ہے۔ اگر کسی مسلمان کا باپ یا ماں کافر ہے اور کہے کہ تو مجھے بت خانہ پہنچا دے تو نہ لیجائے اور اگر وہاں سے آنا چاہتے ہیں تو لا سکتا ہے۔“ (بہارشریعت، جلد2، حصہ9، صفحہ452، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ناجائز کام پر اجارے کے حوالے سے فتح القدیر میں ہے

’’الاجارہ علی ما ھو طاعۃ او معصیۃلا تجوز‘‘

 ترجمہ: کسی نیکی (سوائے مستثنیات کے) یا گناہ کے کام پراجارہ جائز نہیں۔ (فتح القدیر، فصل فی البیع، جلد 10، صفحہ 60، مطبوعہ: کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’وہ جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے،۔۔۔ ایسی ملازمت خود حرام ہے، اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مالِ حلال سے دی جائے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 515، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4314

تاریخ اجراء: 15ربیع الثانی1447 ھ/09اکتوبر2025 ء