کیا غیر مسلم کو کافر کہنا شدت پسندی ہے؟

غیر مسلم کو کافر کہنا شدت پسندی ہے؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ بعض غیر مسلم یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ مسلمان، غیر مسلموں کو کافر کہتے ہیں، انہیں کافر کہنا شدت پسندی ہے، انہیں صرف غیر مسلم کہناچاہیے، مسلمان انہیں کافر کہہ کر اتنی شدت کیوں کرتے ہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عام طور پر مسلمان کو مسلمان اور جو مسلمان نہ ہو اسے غیر مسلم یا اس کے مذہب کے اعتبار سے ہندو، عیسائی، سکھ وغیرہ کہا جاتا ہے ، بطورِ خاص کسی کو کافر کہنے کا التزام نہیں ہے کہ خواہی نخواہی کافر ہی کہا جائے گا اور کسی موقع و محل کی مناسبت سے جب غیر مسلموں کو کافرکہا جاتا ہے، تو وہاں عمومی طور پرشدت یا گالی کے طور پر نہیں، بلکہ لفظِ ” کافر “ چونکہ ایک شرعی اصطلاح، حکمِ شرعی اور اسلامی عقیدے و نظریے کا اظہار ہے کہ جو شخص دینِ اسلام کا منکر ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں کافر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دین  اسلام میں غیر مسلم کو کافر کے لفظ ہی سے یاد کرنا ضروری نہیں بلکہ ان کے مذاہب کے اعتبار سے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے سب سے بڑی دلیل قرآن مجید میں موجود ہے کہ قرآن میں یہودیوں، عیسائیوں، آتش پرستوں، ستارہ پرستوں اور مشرکوں کو ان ہی الفاظ کے ساتھ بیسیوں مقامات پر ذکر کیا گیا ہے، ہر جگہ کافر کہنے کا التزام نہیں۔ آئیے آیات ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِـٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾

ترجمۂ کنز العرفان: بیشک ایمان والوں، نیزیہودیوں اور عیسائیوں اور ستاروں کی پوجا کرنے والوں میں سے جو بھی سچے دل سے اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک کام کریں توان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سور ۃ البقرۃ، آیت 62)

ایک جگہ فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِـٕیْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ﴾

ترجمۂ کنز العرفان: بیشک مسلمان اور یہودی اور ستاروں کی پوجا کرنے والے اور عیسائی اور آگ کی پوجا کرنے والے اور مشرک بیشک اللہ ان سب میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا،بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سورۃ الحج، آیت 17)

ایک جگہ فرمایا:

﴿وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ﴾

ترجمۂ کنز العرفان: اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔ (سورۃ التوبۃ، 30)

ایک جگہ فرمایا:

﴿وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ﴾

ترجمۂ کنز العرفان: اور یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اے حبیب! تم فرما دو: (اگر ایسا ہے تو) پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم (بھی) اس کی مخلوق میں سے (عام) آدمی ہو۔ (سورۃ المائدۃ، آیت 18)

ایک جگہ فرمایا:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ)

ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (سورۃ المائدہ، آیت 51)

ایک جگہ فرمایا:

﴿اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ رَسُوْلُهٗ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ﴾

ترجمۂ کنز العرفان: اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی، تو اگر تم توبہ کروتو تمہا رے لئے بہتر ہے۔ (سورۃ التوبۃ، آیت 3)

یہ چند آیات پیش کی ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ غیرمسلموں کو کافر کے لفظ سے ہی بیان نہیں کیا گیا، بلکہ ان کے مذاہب کے نام سے ذکر کیا گیا ہےاور یہی آج تک مسلمانوں کا طریقہ ہے کہ جس کا جو مذہب ہے اسے اسی کے نام سے اکثر و بیشتر بیان کرتے ہیں کہ فلاں یہودی ہے، عیسائی ہے، ہندو ہے، سکھ ہے، بدھ مت کا پیروکار ہے وغیرہا۔

اب آئیے اگلی بات کی طرف کہ اگر کسی جگہ کسی کو کافر کہا جاتا ہے تو وہ بھی دین اسلام کی ایک قطعی درست اصطلاح ہے کہ ایمان و کفر کا شرعی معنیٰ تو کچھ تفصیلی ہے، لیکن اس میں الفاظ کا لغوی معنیٰ بھی موجود ہوتا ہے۔ ایمان کا لغوی معنیٰ’’تصدیق کرنا‘‘ ہے اور کفر کا معنیٰ ’’انکار کرنا‘‘ ہے۔ اس لئے دین اسلام کے ماننے والے کو مومن اور انکار کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔ یہ تو سیدھا سیدھا الفاظ کو ان کے معانی میں استعمال کرنا ہے اور یہی "مومن" اور "کافر" شرعی اصطلاحات بھی ہیں۔

معلوم ہوا کہ لفظِ ”کافر“ اپنی اصل و وضع کے اعتبار سے گالی یا شدت کا اظہار نہیں، بلکہ شرعی اصطلاح کا استعمال و اظہار ہے، جیسا کہ خود قرآن مجید میں اسلام کے قطعی عقیدے کے انکار پر کفر کا لفظ موجود ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کا بیٹا کہنے والوں کو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

﴿لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ﴾

ترجمۂ کنز العرفان : بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے۔ (سورۃ المائدۃ، آیت 72)

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کفر کرنے والے کو کافر کہنا قرآن مجید کا عمومی اسلوب ہے اور ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان فرق کے طو ر پر ہےجس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی جگہ کسی خاص پسِ منظر اور صورت حال میں شدت کے طور پر کسی کو کافر کہا گیا ہو یا کہاجائے تو یہ عمومی مقصد نہیں، بلکہ خاص اس صورت حال کا تقاضا ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر مذکور آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہنے کی تردید شدت کے ساتھ بیان کی گئی کیونکہ یہ بات کوئی معمولی نہیں کہ خدا کے بندے کو خدا کہہ دیا جائے تو اس پر یقیناً شدت کے ساتھ تردید ہونی چاہیے جیسا کہ آیت میں کی گئی۔

جب کوئی مسلمان حکمِ شرعی کے اظہار کے لیے کسی کافر کو کافر کہتا ہے، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں کہ اس کی اجازت، بلکہ حکم خالقِ کائنات عزوجل نےدیا ہے، بلکہ خود بھی کافروں کو کافر کہہ کر خطاب فرمایا، لہٰذا وقتِ ضرورت عقائدِ اسلامیہ کےمنکر کو کافر کہنا اس کےعقائدکی اصل تعبیر ہے، چنانچہ اللہ پاک نے خود کافروں کو کافر کہہ کر خطاب فرمایا، چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ رب العباد ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ﴾

ترجمۂ کنز العرفان: اے کافرو! آج تم بہانے نہ بناؤ۔ (سورۃ التحریم، آیت 7)

انبیائے کرام کو جھٹلانے والوں پر حکمِ کفر بیان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا﴾

ترجمۂ کنز العرفان: یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے تو وہ کہتے: کیا آدمی ہماری رہنمائی کریں گے ، تو انہوں نے کفر کیا ( یعنی وہ کافر ہو گئے)۔ (سورۃ التغابن، آیت 6)

یونہی اللہ رب العزت نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اور قرآنِ مجید کے عمومی حکم کے تحت تمام مسلمانوں کو حکم ارشاد فرمایا کہ کافر کو کافر کہو، چنانچہ قرآنِ مجید میں ”سورۃ الکافرون“ کے نام سے پوری سورت نازل فرمائی، جس کی ابتداہی ان الفاظ سے ہوتی ہے:

﴿قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ﴾

یعنی: تم (پکار کر) فرماؤ! اے کافرو! جنہیں تم پوجتے ہو، میں ان کی عبادت نہیں کرتا۔ (سورۃ الکافرون، آیت 1)

مذکورہ بالا آیات کے علاوہ بھی کثیر آیات اور احادیث پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن اختصار کے پیشِ نظر ان پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ یہ ذہن میں رکھیں کہ جہاں شدت کا موقع ہو وہاں کافر کہنا شدت کے مفہوم کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوگا لیکن یہ نہیں کہ ہر جگہ صرف شدت ہی مقصود ہے بلکہ جیسا موقع ہوگا ویسا ہی مفہوم لیاجائے اور اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عمومی زندگی میں بھی دس باتیں اگر نرمی سے ہوتی ہیں تو دو باتیں سختی سے بھی کی جاتی ہیں۔ یہ کلام کا فطری اسلوب ، فصاحت و بلاغت کا تقاضا اوراظہارِ حقیقت کا درست طریقہِ بیان ہے۔

دوسروں کو کافر کہنے کے حوالے سے عظیم فقیہِ اسلام حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”مسلمان کو مسلمان ، کافِر کو کافِر جاننا ضَرورياتِ دین سے ہے، قَطْعی کافِر کے کُفر میں شک بھی آدَمی کو کافِر بنا دیتا ہے۔ اِس زمانہ میں بعض لوگ يہ کہتے ہیں کہ میاں جتنی دیر اسے کافِر کہو گے اُتنی دیراللہ اللہ کرو، یہ ثواب کی بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافِر کافِر کا وظیفہ کر لو، مقصود یہ ہے کہ اسے کافِر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً (یعنی یقینی طور پر) کافِر کہو، نہ یہ کہ اپنی صُلْحِ کُل سے اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔ (بھارِ شریعت، حصّہ 1،جلد 1، صفحہ 185، 186، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

ایک اور انداز سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ دین اسلام میں خدا سے بغاوت، سرکشی اور اس کے دین کا انکار کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ بہت بڑا جرم ہے اور جرم کو اس کے نام سے ذکر کرنا غلط نہیں بلکہ دنیا بھر کا طریقہ ہے اگرچہ مجرم اس لفظ کو برا ہی سمجھے، مثلا:

(1) اگر کوئی شخص کوئی جرم کرتا ہے، تو دنیا کا ہر قانون اس کو مجرم ہی کہے گا، خواہ مجرم کہتا رہے کہ یہ لفظ شدت و گالی ہے۔

(2) اگر کوئی شخص کسی کا مال چراتا یا لوٹتا ہے، تو اس کو چور یا ڈاکو ہی کہا جائے گا، اگرچہ چور، ڈاکو اس لفظ کو اپنے لیے توہین سمجھیں۔

(3) اگر کوئی شخص ملکی خزانے میں کرپشن کرتا ہو، تو اسے کرپٹ ہی کہا جائے گا، اگرچہ وہ اس کو اپنےلیے باعثِ عار سمجھے۔

(4) اگر معاذ اللہ! کوئی شخص زنا و بدکاری کا ارتکاب کرتا ہے، تو اسے زانی ہی کہا جائے گا، خواہ وہ اس کو اپنے لیے ذلت کا باعث سمجھے۔

الغر ض جب دنیاوی مجرم کو اس کی کیفیت کے مطابق لکھنا ، بولنا عقلاً بھی درست ہے، تو جو شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرکے خالقِ کائنات عزوجل کا مجرم ہے، اسے موقع و محل کی مناسبت سے کافر کہنا، کیونکر درست نہیں ہوگا؟

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9533

تاریخ اجراء: 28 ربیع الاول 1447 ھ / 22 ستمبر 2025 ء