
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی درزی غیر مسلم ہو، تو کیا اس سےاجرت پر سوٹ سلائی کروا سکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قادیانیوں سے تو کسی طرح کے معاملات کرنے کی بھی شرعا اجازت نہیں ہے، لہذا ان سے سوٹ سلائی نہیں کروا سکتے۔ البتہ! اصلی کفاریعنی عیسائی وغیرہ سے محض معاملات کرنا جائز ہے، لہذا ان سےاجرت پر سوٹ سلائی کروانا بھی جائز ہے، لیکن ان سے دوستانہ تعلقات رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ نیز یہ یادرہے کہ جہاں مسلمان درزی میسرہو،وہاں حتی الاماکن مسلمان ہی سے معاملات کرنے چاہییں، لہذا اسی سے سوٹ سلائی کرواناچاہیے کہ اس میں مسلمان کومالی مددپہنچاناہے۔
کفار سے دوستی کے ناجائز ہونے کے متعلق قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ- اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا)
ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کے لئے صریح حجت قائم کرلو۔ (پارہ 5، سورۃ النساء، آیت 144)
امام اہلسنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”معاملت مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائز ہے جبکہ اس میں نہ کوئی اعانت کفر یا معصیت ہو نہ اضرار اسلام وشریعت، ورنہ ایسی معاملت مسلم سے بھی حرام ہے چہ جائیکہ کافر،
قال تعالی:(و لاتعاونوا علی الاثم و العدوان)
(اللہ تعالی نے فرمایا:گناہ وزیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔) (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 433، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید فرماتے ہیں: ’’غیر ذمی سے بھی خرید و فروخت، اجارہ و استیجار، ہبہ و استیہاب بشروطہا جائز اور خریدنا مطلقاً ہر مال کا کہ مسلمان کے حق میں متقوم ہو اور بیچنا ہر جائز چیز کا جس میں اعانتِ حرب یا اہانت اسلام نہ ہو، اسے نوکر رکھنا جس میں کوئی کام خلاف شرع نہ ہو۔۔۔ ایسے ہی امور میں اجرت پر اس سے کام لینا۔" (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 421، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4331
تاریخ اجراء: 22 ربیع الآخر 1447ھ / 16 اکتوبر 2025ء