غیر مسلم پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرسکتے ہیں؟

آیت پڑھ کر کافر پر دم کر نے کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی غیر مسلم پر جادو کے مضر اثرات ہوں، تو اس کے علاج کے لیے اس پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کیا جاسکتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

غیر مسلم پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا شرعاً جائز ہے،اس میں کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دورانِ سفر غیر مسلم مریض پر قرآنی آیات کو پڑھ کر دم کیا، اور پھر جب صحابہ کرام سفر سے واپس تشریف لائے اور اُس واقعے کو رسولِ اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا، تو آپ ﷺ نے اس عمل کو ہرگز ناپسند یا ممنوع قرار نہ دیا۔ لہٰذا فی نفسہ غیر مسلم پر قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ کے ذریعے دم کرکے علاج کرنا درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر یاد رہے! یہ حکم عام کفّار کے لیے ہے، بعض کافروں کا معاملہ اس سے بالکل جُدا ہے، جیسے مرتد کافر، یا وہ ظالم و مُوذی کافر جو مسلمانوں کو ایذا پہنچاتا ہو، اُن کے خلاف ظالمانہ اقدامات کرتا ہو، یا ایسی سرگرمیوں میں شریک ہو، جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے ہوں، تو ایسے کافروں سے بلاؤں اور امراض کو دور کرنے کیلئے آیاتِ قرآنیہ یا دیگر وظائف و عملیات ہرگز نہ پڑھے جائیں، کیونکہ مرتد کافراور اسی طرح وہ کفّار جو مسلمانوں کو زبانی، تحریری یا عملی طور پر اذیتیں پہنچاتے، ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں، مسلمانوں کے اعتبار سے اُن کے لیے بھی یہی حال بہتر ہے کہ وہ اپنی مصیبت اور بیماری و تکلیفوں ہی میں مبتلا رہیں، تاکہ اس مدت میں لوگ اُن کے شر اور ایذا رسانی سے محفوظ رہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ موذی ظالم کافر کیلئے بد دعا کرنے کی بھی شرعاً اجازت ہے، تا کہ خلق خدا اُس سے چھٹکارا حاصل کرے۔

کافر پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا جائز ہے، چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث پاک ہے:

عن ابن عباس: أن نفرا من أصحاب النبي صلى اللہ عليه و سلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلا لديغا أو سليما، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب اللہ أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول اللہ، أخذ على كتاب اللہ أجرا، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: «إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب اللہ»

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چند صحابہ کرام ایک گھاٹ کے پاس سے گزرے۔ وہاں ایک شخص کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا تھا۔ گھاٹ کے ایک آدمی نے ان صحابہ سے کہا: کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ ہمارے ہاں ایک شخص ہے، جو بچھو یا سانپ کا کاٹا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک صحابی کچھ بکریوں کی شرط پر چلے گئے اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، تو وہ مریض تندرست ہوگیا۔ اس پرگھاٹ والوں نے بکریاں ان صحابی کو بطور انعام دیں، لیکن صحابہ کو یہ بات اچھی نہ لگی اور وہ کہنے لگے: تم نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی؟ پھر جب وہ سب مدینہ منورہ حاضر ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! انہوں نے قرآن پر اجرت لی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک سب سے زیادہ حق دار چیز جس پر اجرت لی جائے وہ اللہ کی کتاب ہے"۔ (صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 134، رقم الحدیث: 5737، دار طوق النجاۃ)

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی مراٰۃ المناجیح میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس سے دومسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ جھاڑ پھونک، دَم درود کا زمانہ صحابہ میں تھا۔دوسرے یہ کہ لوگوں کو پتہ تھا کہ صحابہ کرام دَم درود کرتے تھے اور قرآن شریف اور دعاؤں میں تاثیر ہے، یہ گھاٹ والے مسلمان نہ تھے جیسا کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتاہے۔“  (مراۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 392، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

صحیح بخاری شریف او ر سنن ابی داؤد کی حدیث مبارکہ ہے:

و اللفظ للاول:عن أبي سعيد، أن رهطا من أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم انطلقوا في سفرة سافروها، حتى نزلوا بحي من أحياء العرب، فاستضافوهم فأبوا أن يضيفوهم، فلدغ سيد ذلك الحي، فسعوا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فقال بعضهم: لو أتيتم هؤلاء الرهط الذين قد نزلوا بكم، لعله أن يكون عند بعضهم شيء، فأتوهم فقالوا: يا أيها الرهط، إن سيدنا لدغ، فسعينا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فهل عند أحد منكم شيء؟ فقال بعضهم: نعم، واللہ إني لراق، ولكن واللہ لقد استضفناكم فلم تضيفونا، فما أنا براق لكم حتى تجعلوا لنا جعلا، فصالحوهم على قطيع من الغنم، فانطلق فجعل يتفل ويقرأ: الحمد لله رب العالمين حتى لكأنما نشط من عقال، فانطلق يمشي ما به قلبة، قال: فأوفوهم جعلهم الذي صالحوهم عليه، فقال بعضهم: اقسموا، فقال الذي رقى: لا تفعلوا حتى نأتي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فنذكر له الذي كان، فننظر ما يأمرنا، فقدموا على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فذكروا له، فقال: «و ما يدريك أنها رقية؟ أصبتم، اقسموا واضربوا لي معكم بسهم»

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ ایک سفر پر نکلے،یہاں تک کہ وہ عرب کے ایک قبیلے کے پاس اترے اور ان سے مہمان نوازی کی درخواست کی، لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ پھر اس قبیلے کے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا۔ انہوں نے اس کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کی ،مگر کسی چیز نے فائدہ نہ دیا۔ تو کچھ لوگوں نے کہا: اگر تم ان مہمانوں (صحابہ) کے پاس جاؤ، جو تمہارے ہاں اترے ہیں، توشاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی علاج ہو۔ چنانچہ وہ ان کے پاس آئے اور کہا: اے لوگو! ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے، ہم نے ہر تدبیر کی لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس اس کا کچھ علاج ہے؟ تو ان میں سے ایک نے کہا: ہاں! اللہ کی قسم، میں دم کرنے والا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! ہم نے تم سے مہمان نوازی چاہی تھی اور تم نے ہمیں مہمان نہیں بنایا، اس لیے میں تمہیں دم نہ کروں گا جب تک کہ تم ہمارے لیے کچھ اجرت مقرر نہ کرو۔ پھر انہوں نے ایک ریوڑ بکریوں پر صلح کرلی۔وہ صحابی گئے اور تھوک ڈالتے اور پڑھتے: الحمد لله رب العالمين، یہاں تک کہ وہ ایسا تندرست ہوگیا گویا کسی بندھے ہوئے کو رسی سے کھول دیا گیا ہو ۔ وہ (سردار) فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور ایسے چلنے لگا ،جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ پھر انہوں نے وہ اجرت (بکریوں کا ریوڑ) پوری طرح صحابہ کو دے دی جس پر معاملہ طے ہوا تھا۔صحابہ نے کہا: آؤ اسے آپس میں تقسیم کرلیں۔ مگر جس صحابی نے دم کیا تھا، انہوں نے کہا: ابھی تقسیم نہ کرو، جب تک ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس نہ جائیں اور پورا واقعہ نہ بیان کریں اور دیکھیں کہ آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تمہیں کس نے بتایا کہ یہ (سورۂ فاتحہ) دم ہے؟ تم نے بالکل درست کیا۔ اب اسے آپس میں تقسیم کرلو اور اس میں میرا حصہ بھی شامل کرو۔ (صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 135، رقم الحدیث: 5749،دار طوق النجاۃ)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

لا خلاف بين الفقهاء في جواز رقية المسلم للكافر. و استدلوا بحديث أبي سعيد الخدري رضي اللہ عنه الذي سبق ذكره۔ و وجه الاستدلال أن الحي - الذي نزلوا عليهم فاستضافوهم فأبوا أن يضيفوهم - كانوا كفارا، ولم ينكر النبي صلى اللہ عليه وسلم ذلك عليه

ترجمہ: مسلمان کے کافر پر دم کرنے کے جائز ہونے کے بارے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ انہوں نے اس پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث دلیل کے طور پر پیش کی ہے جس کا ذکر گزر چکا۔ استدلال کی وجہ یہ ہے کہ وہ قبیلہ جہاں صحابہ کرام اترے اور جنہوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کیا تھا، کافر تھا، اور نبی اکرم ﷺ نے اس پر انکار (منع) نہیں فرمائی۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد 13، صفحہ 34، مطبوعہ دار السلاسل، الكويت)

مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ فتاوی شارح بخاری میں لکھتے ہیں: ”کسی کافر کی شفاکیلئے قرآن مجید پڑھ کر اس پر پھونکنا جائز ہے اور احادیث سے ثابت ہے، ایک صحابی نے بچھو یا سانپ کے ڈسے ہوئے کافر پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم فرمایا اور اجرت میں تیس30 بکریاں لیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تو اُسےجائز رکھا۔“ (فتاوی شارح بخاری، جلد2، صفحہ 552، دائرۃ البرکات، گھوسی، ھند)

موذی کافر اور مطلقاً مرتد کافر کوبلاؤں اور امراض کے دور کرنے کا تعویذ نہ دیا جائے کہ ان کا مصیبت وتکلیف میں مبتلا رہنا ہی اچھا ہے، چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو کافر خصوصاً مرتد جیسے قادیانی۔۔۔ (وغیرہا) مسلمان کو ایذادیا کرتا ہو اگرچہ رسائل کی تحریریامذہبی تقریر سے، اُس پرسے دفعِ بلا خواہ رفعِ مرض کابھی نقش(تعویذ) نہ دیاجائے، اور ایسانہ ہو(یعنی مسلمانوں کو ایذا نہ دیتا ہو)اوراس کام میں کسی مسلمان کاذاتی نقصان بھی نہ ہو جب بھی مرتدوں کامبتلائے بلاہی رہنابھلا(اچھا ہے)‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 608، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

ظالم موذی کافر کیلئے بد دعا کرنا بھی شرعاً جائز ہے، چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے:

فوجه البابين أعني: باب الدعاء على المشركين و باب الدعاء للمشركين، باعتبارين ففي الأول: مطلق الدعاء عليهم لأجل تماديهم على كفرهم و إيذائهم المسلمين، و في الثاني: الدعاء بالهداية ليتألفوا بالإسلام

ترجمہ:پس دونوں ابواب کی وجہ(دونوں ابواب سے) میری مراد: مشرکین پر بد دعا کرنے کا باب اور مشرکین کے لیے دعا کرنے کا باب، تو یہ دو اعتبار سے ہے۔ پہلا یہ کہ ان پر بد دعا کرنا، ان کے کفر پر ڈٹے رہنے اور مسلمانوں کو ایذا دینے کی وجہ سے ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ان کے لیے ہدایت کی دعا کرنا، تاکہ وہ اسلام سے مانوس اور قریب ہوجائیں۔ (عمدۃ القاری، جلد 23، صفحہ 19، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

قال اللہ تعالى: {لا يحب اللہ الجهر بالسوء من القول إلا من ظلم} قال القرطبي: الذي يقتضيه ظاهر الآية أن للمظلوم أن ينتصر من ظالمه، و لكن مع اقتصاد، إن كان الظالم مؤمنا، كما قال الحسن، و إن كان كافرا فأرسل لسانك و ادع بما شئت من الهلكة و بكل دعاءكما فعل النبي صلى اللہ عليه وسلم حيث قال: اللّٰہم اشدد وطأتك على مضر. اللّٰہم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف. و قال: اللہم عليك بفلان وفلان سماهم

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے۔ علامہ قرطبی نے فرمایا: آیت کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ مظلوم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے ظالم سے نجات حاصل کرے، لیکن اگر ظالم مومن ہو، تو اعتدال کے ساتھ۔ جیسا کہ حسن نے کہا۔ اور اگر ظالم کافر ہو تو تو اپنی زبان کو کھلا چھوڑدے اور جیسی ہلاکت کی چاہے دعائیں کرے، جیسا کہ نبی ﷺ نے کیا جب انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! مُضَر (قبیلہ) پر اپنی پکڑ سخت فرما۔ اے اللہ! ان پر ایسے(قحط کے) سال مسلط فرما، جیسے یوسف علیہ السلام کے (زمانے میں قحط کے) سال تھے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! فلاں اور فلاں پر اپنا عذاب نازل فرما ـ آپ نے ان کے نام لے کر بد دعا کی۔ (موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 20، صفحہ 267، دار السلاسل، کویت)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان کے والد ماجد رئیس المتکلمین حضرت مولانا نقی علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اگر کسی کافر کے ایمان نہ لانے پر یقین یا ظن غالِب ہو اور جینے سے دین کا نقصان ہو ، یا کسی ظالم سے امید توبہ اور ترکِ ظلم کی نہ ہو اور اس کا مرنا تباہ ہونا خلق کے حق میں مفید ہو ، ایسے شخص پر بد دعا دُرُست ہے۔“ (احسن الوعاء بنام فضائل دعا، صفحہ 187، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-889

تاریخ اجراء: 25 ربیع الاول1447ھ/19ستمبر 2025ء