کافر کے سلام کا جواب دینا کیسا؟

کافر کے سلام کا جواب کس طرح دیا جائے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگرکافرسلام کرےتو اس  کا جواب کس طرح دیا جائے ؟ اور اس میں ذمی وحربی کافر میں  کچھ فرق ہے یا دونوں کا ایک حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

    ہمارے زمانے میں تمام کفار حربی ہیں اور حربی کافر کو بلا خوفِ فتنہ جوابِ سلام دینے کی اجازت نہیں البتہ جواب نہ دینے میں اگرکسی  فتنہ کا خوف ہو تو جواب دے سکتے ہیں مگر جواب میں الفاظ مروجہ جن میں نہ سلام  ہو نہ اس کی تعظیم ،مثلا جناب ،صاحب یافقط ہاتھ ہلا دینا وغیرہ سے اگر کام چلتا ہوتوفقط اتنے الفاظ ہی کہے جائیں،ورنہ وہ اکیلا ہو تو جوابا فقط علیک یا و علیک “کہہ دیں اوراگرزیادہ ہوں تو” علیکم“یا”وعلیکم“کہہ لیں اور اگر اسقدر پراقتصار میں بھی فتنے کا  خوفِ صحیح ہوتو  جوابا اس کے فرشتوں کی نیت سے و علیکم السلام  کہہ سکتے ہیں ۔

    رہا ذمی کافر تواسے بلا خوف فتنہ بھی جواب سلام دینا چاہیے  کہ اس کو جواب نہ دینے  میں اسے ایذا دینا ہے اور ذمی کو ایذا دینا شرعا ممنوع ہے جبکہ جواب دینا احسان ہے اور ذمی پر احسان مستحب ہے البتہ اس کے جواب میں بھی وہ ہی الفاظ علیک یاوعلیک “اورزیادہ کے لئے” علیکم“یا”وعلیکم“ کہنے ہوں گے یا فرشتوں کی  نیت سے پورا جواب  بھی دے سکتے ہیں۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتویٰ نمبر: Lar-6147

تاریخ اجراء: 27 صفرالمظفر1438ھ / 28 نومبر 2016ء