
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3606
تاریخ اجراء:27شعبان المعظم 1446ھ/26فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا جنت میں صرف مسلمان جائیں گے ؟ اگر کوئی کافر دنیا میں اچھے کام کرتا ہے تو کیا وہ بھی جنت میں جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں !جنت میں صرف مسلمان جائیں گے ،کوئی کافرجنت میں نہیں جائے گا۔ دنیا میں کوئی کافر کتنا ہی اچھا عمل کرلے ، اگر وہ کفر کی حالت میں مرا ، تو آخرت میں اسے نیک اعمال کا کوئی ثواب نہیں ملے گا،اللہ تعالیٰ نے اپنی شانِ عدل سے یہ قطعی قانون بنایا ہے کہ اچھے اعمال پر آخرت میں جزا پانے کے لئے ایمان شرط ہے۔ اگر کوئی یہ شرط پوری کرتا ہے تو آخرت میں جزا کا حق دار ہے ورنہ اسے دنیا ہی میں عزت ، دولت ، شہرت ، منصب ، رزق ، سہولیات اور اس طرح کی چیزیں صلہ میں دیدی جاتی ہیں لیکن آخرت میں اس کے اعمال باطل قرار پاتے ہیں۔
جو ایمان نہ لائے ان کے اعمال خدا کی بارگاہ میں باطل و مردود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اُولٰٓىٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْؕ -وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا)ترجمہ : یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں ہیں تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔(پ21 ، الاحزاب : 19)
کافروں کے بارے میں خدا کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے ، خدا کا قرب و ولایت اور آخرت کی نجات انہیں ہرگز نصیب نہیں ہوگی، چنانچہ قرآن میں فرمایا: (اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ- اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ)ترجمہ : بیشک اہلِ کتاب میں سے جو کافر ہوئے وہ اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے ، وہی تمام مخلوق میں سب سے بدتر ہیں۔(پ30 ، البینۃ : 6)
کافروں کے اعمال کے بارے رب کائنات ارشاد فرماتا ہے: (وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا )ترجمہ: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشن دان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔(پ19 ، الفرقان: 23)
مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں لکھاہے:” آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں کی پرورش وغیرہ، اللہ تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح انہیں بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں مُیَسَّر نہ تھا۔“(صراط الجنان،جلد7،صفحہ14،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
صحیح مسلم میں ہے” عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة، يعطى بها في الدنيا ويجزى بها في الآخرة، وأما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا، حتى إذا أفضى إلى الآخرة، لم تكن له حسنة يجزى بها“ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کسی مسلمان کی نیکی کوضائع نہیں فرمائے گا،اسے اس کابدلہ دنیامیں بھی دیاجائے گااورآخرت میں بھی ،اور رہا کافر تو اس نے دنیا میں جو اللہ عزوجل کے لئے نیکیاں کی ہیں ان کا بدلہ اسے دنیا میں ہی دے دیا جائے گا اور جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہو گی جس کی اسے جزا دی جائے۔(صحیح مسلم،رقم الحدیث 2808،ج 4،ص 2162، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)
مذکورہ حدیث کے تحت فیض القدیر للمناوی میں ہے” (فيطعم بحسناته في الدنيا) أي يجازي فيها على ما فعله من القرب التي لا تحتاج لنية بنحو توسعة لرزقه ودفع مصيبة ونصر على عدو وغير ذلك“ ترجمہ : حدیث کے الفاظ(دنیا میں ہی کافر کو اس کی نیکیوں کے بدلے کھلا دیا جائے گا)یعنی کافر نے جو ایسی نیکی کی جس میں نیت کی حاجت نہ ہو تو اس کا بدلہ اسے دنیا میں ہی دے دیا جائے گا مثلاً رزق میں فراخی کرنے،مصیبت دور کرنے اور دشمن کے مقابلے میں مدد دینے وغیرہ کی صورت میں۔(فیض القدیر،ج 2،ص 272،مطبوعہ: مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم