
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
مسجد کی تعمیرات میں اگر کوئی غیر مسلم خود سےچندہ دینا چاہے، تو اس سے چندہ لے کر مسجد کی تعمیرات میں لگا سکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگرغیر مسلم مسجد میں چندہ اس لیے دیتا ہے کہ مسلمانوں پر احسان جتائے یا مسجد کے معاملات میں دخل اندازی کرسکے تواس سے چندہ لینا ناجائز ہے اور اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرے تو لینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ آئندہ بھی اس سے مسجد پر احسان جتانے یا مسجد کے معاملات میں دخل اندازی کا گمان نہ ہو۔
جس صورت میں اس سے رقم لینا جائز ہے، اس صورت میں بھی رقم کے عوض کوئی چیز کافر کی طرف سے خرید کر مسجد میں نہ لگائی جائے بلکہ مسلمان خود خریدیں۔ ایسی صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ کافر رقم مسلمان کو گفٹ کردے اور مسلمان مسجد میں لگا دے۔ بہر حال غیر مسلموں کا مال مسجد میں استعمال کرنے سے بچا جائے، مسجد میں صحیح العقیدہ سنی مسلمان کا ہی پیسہ لگایا جائے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے: ”مسجد میں لگانے کو روپیہ اگراس طور پر دیتا ہے کہ مسجد یا مسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں اس کی کوئی مداخلت رہے گی تو لینا جائز نہیں اور اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں جب کہ اس کے عوض کوئی چیز کافر کی طرف سے خرید کر مسجد میں نہ لگائی جائے بلکہ مسلمان بطور خود خریدیں یاراجوں مزدوروں کی اجرت میں دیں اور اس میں بھی اسلم وہی طریقہ ہے کہ کافر مسلمان کو ہبہ کردے مسلمان اپنی طرف سے لگائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 520، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2168
تاریخ اجراء: 29 شعبان المعظم 1446ھ / 28 فروری 2025ء