Murtad Hone Se Pehli Wali Ada aur Qaza Namazon Ka Hukum

مرتد ہونے سے پہلے والی ادا اور قضا نمازوں کا حکم

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3476

تاریخ اجراء:17رجب المرجب1446ھ/18جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص مرتد ہوجائے  تو اس شخص کی زمانہ ارتداد کی نمازوں کی قضاء نہیں لیکن  وہ شخص  دوبارہ اسلام قبول کرلے تو  کیا  سابقہ زمانہ اسلام کی ادا کی ہوئی نمازوں کو دوبارہ پڑھنا لازم ہے؟ یا صرف زمانہ اسلام کی قضا نمازوں کی قضاکرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مرتد ہوتے ہی مرتد کے  پچھلے تمام نیک اعمال بشمول نماز ،روزہ، حج وغیرہ ضائع ہو جاتے ہیں،اس پرلازم ہوتاہے کہ توبہ وتجدیدایمان کرے، اوردوبارہ اسلام لانے کے بعدعبادات کے معاملے میں اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ:

   (1)زمانہ ارتداد میں رہ جانے والی نمازوں  وغیرہ عبادات  کی قضا نہیں ہے۔

   (2) مرتدہونے سے پہلے، زمانہ اسلام  میں جوعبادات جیسےنمازیں، روزے وغیرہ اداکیے تھے،ان  کی  بھی قضاء نہیں۔ البتہ! اگر اس نے مرتدہونے سے پہلے، زمانہ اسلام میں  فرض حج ادا کرلیا تھاتو دوبارہ مسلمان ہونے کی صورت میں اگرحج کی شرائط پائی جائیں تواس  پر نئے سرے سے حج کرنا فرض ہوگا۔ اسی طرح اگرکسی نمازکوپڑھ کر (معاذاللہ عزوجل) مرتدہواتھا، پھر اسی نمازکے وقت میں دوبارہ مسلمان ہوگیا تو اس نمازکی دوبارہ ادائیگی اس پرلازم ہوگی مثلاً کسی دن کی ظہرکی نمازپڑھ کر(معاذاللہ عزوجل)  مرتدہوااورابھی اس دن کی ظہرکاوقت باقی تھاکہ دوبارہ اسلام لے آیاتواب ظہرکی نمازدوبارہ اداکرنااس پرلازم ہے۔

   (3) مرتدہونے سےپہلے، زمانہ اسلام میں جوعبادات کسی طرح ذمہ پرباقی تھیں (مثلاکوئی نمازیاروزہ قضاکیا تھا)تووہ تمام عبادات ابھی بھی ذمہ پرباقی ہیں، لہذادوبارہ اسلام  لانے کے بعد ان کی ادائیگی کرنااس پرلازم ہے۔

   در مختار وتنویر الابصار میں ہے "(ويقضي ما ترك من عبادة في الإسلام) لأن ترك الصلاة والصيام معصية والمعصية تبقى بعد الردة (وما أدى منها فيه يبطل، ولا يقضي) من العبادات (إلا الحج) لأنه بالردة صار كالكافر الأصلي، فإذا أسلم وهو غني فعليه الحج فقط" ترجمہ: حالت اسلام میں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا کرے گا کیونکہ نماز اور روزہ کا ترک معصیت ہے اور ارتداد کے بعد معصیت باقی رہتی ہےاورزمانہ اسلام میں جوعبادات اس نے اداکی تھیں مرتدہونے سے وہ باطل جائے گی، اور حج کے سواکسی عبات کی قضانہیں کرے گا کیونکہ ارتداد کی وجہ سے وہ کافر اصلی کی طرح ہو گیا، لہذا جب وہ مسلمان ہوگا اس حال  میں کہ وہ غنی تھا تو اس پر فقط حج لازم ہوگا۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے "لأن سببه البيت المكرم وهو باق، بخلاف غيره من العبادات التي أداها لخروج سببها: و لهذاقالوا: إذا صلى الظهر مثلا ثم ارتد ثم تاب في الوقت يعيد الظهر لبقاء السبب وهو الوقت" ترجمہ: کیونکہ حج کا سبب مکۃ المکرمہ ہے اور وہ باقی ہے بخلاف حج کے علاوہ دیگر عبادات کے کیونکہ ان کا سبب ختم ہو گیا ہے اس وجہ سے فقہاء نے کہا جب کسی نے ظہر کی نماز پڑھی پھر معاذ اللہ وہ مرتد ہو گیا پھر وہ توبہ کر کے ظہر کے وقت میں ہی مسلمان ہو گیا تو وہ سبب یعنی وقت کے باقی ہونے کی وجہ سے ظہر کا اعادہ کرے گا۔(تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار،ج4، ص 251،252،دار الفکر،بیروت)

   وقار الفتاوی میں ہے "جب کوئی بھی وجہ کفر پائی جائے اور اس پر مرتد کا حکم ہو جائے تو پچھلی تمام عبادات باطل ہو جاتی ہیں جب وہ دوبارہ اسلام لائے تو عبادات کی قضا نہیں سوائے حج کے کہ اگر وہ غنی ہے تو اس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہے۔ مرتد ہونے سے پہلے کی جو عبادات باقی تھی ان کی قضا اس وقت بھی لازم ہے اور دوبارہ اسلام لانے کے بعد بھی ان کی قضا لازم رہے گی۔"(وقار الفتاوی ،جلد02،صفحہ541،بزم وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم