غیر مسلم کو عید کا تحفہ دینے کا حکم

غیر مسلم کو عید گفٹ دینا جائز ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عید کے موقع پر لوگ غیر مسلموں کو بھی عید گفٹ دیتے ہیں، تو کیا غیر مسلم کو عید کا گفٹ دینا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شریعت مطہرہ نے غیر مسلموں سے گہرے تال میل، راہ و رسم، الفت و محبت اور دوستی و ہم رازی رکھنے سے منع فرمایا ہے، بلا شبہہ ان کی رفیقی اور یاری ایمان کے لیے سخت خطرہ اور آخرت کی خرابی کا باعث ہے، لہذا بلا مصلحت شرعی غیر مسلم کو عید گفٹ کے نام پر تحفہ تحائف دینا ممنوع و ناجائز ہے؛ کہ یہ باہمی محبت پیدا کرنے اور میل جول کی راہ ہموار کرنے کا موجب ہے، جس کی اجازت نہیں۔ البتہ کسی حقیقی شرعی ضرورت یا مصلحت کے تحت ہو تو جدا بات ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾

ترجمہ کنز العرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جُھکو ورنہ تمہیں آگ چھوئے گی۔ (پارہ 12، سورۃ ھود 11، آیت 113)

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367 ھ / 1947 ء) اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں: ”اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں اور بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول، رسم و راہ، مودت (پیار) و محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا ، ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔“ (تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 437، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ- وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-﴾

ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے۔ (پارہ 6، سورۃ المائدۃ5، آیت 51)

علامہ عصام الدین اسماعیل بن محمد قونوی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1195 ھ/ 1780 ء) اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:

ما بين القوسين عبارة البيضاوي”نهى الله تعالى عن موالاتهم و إن موالاتهم توصل إلى الدخول في زمرتهم ... (فلا تعتمدوا عليهم) اعتماد الأصحاب (ولا تعاشروهم معاشرة الأحباب) بل عاشر و هم معاشرة الأجانب إن اقتضى الحال“

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ موالات سے منع فرما دیا، کہ بلا شبہہ ان سے موالات رکھنا (آدمی کو) انہی کے گروہ میں شامل ہونے تک پہنچا دیتا ہے۔ پس کفار پر ساتھیوں کا سا اعتماد نہ کرو، اور اگر مقتضائے حال ( کے سبب ان سے تعلق رکھنا پڑ گیا) ہو تو ان کے ساتھ دوستوں کی طرح (محبت و قربت کے ساتھ) نہ رہو، بلکہ ان کے ساتھ اجنبیوں جیسے رہو۔ (حاشية القونوي علي تفسير البيضاوي، جلد 7، صفحہ 484، دار الكتب العلمية، بیروت)

تفسیر صراط الجنان میں مذکورہ آیت کے تحت ہے: ”اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا، اُن سے مدد چاہنا اور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا، یہ حکم عام ہے۔ ... مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود و نصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہر مخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان ،جلد 2، صفحہ 501-502، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ” موالات مطلقاً ہر کافر ہر مشرک سے حرام ہے، اگرچہ ذمی مطیع اسلام ہو، اگرچہ اپنا باپ یا بیٹا یا بھائی یا قریبی ہو،

قال تعالی: ﴿ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْ﴾

تو نہ پائے گا ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں اللہ اور قیامت پر کہ دوستی کریں اللہ و رسول کے مخالفوں سے اگرچہ وہ ان کے باپ، بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں۔ ... مگر صوریہ ضروریہ خصوصاً باکراہ،

قال تعالی: ﴿اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً﴾

مگر یہ کہ تمھیں ان سے واقعی پورا ڈر ہو۔... اور معاملتِ مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائز ہے، جبکہ اس میں نہ کوئی اعانت کفر یا معصیت ہو، نہ اضرارِ اسلام و شریعت، ورنہ ایسی معاملت مسلم سے بھی حرام ہے، چہ جائیکہ کافر۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 432- 433، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک مقام پر لکھتے ہیں: ”سلوک مالی تین طرح ہیں: مرحمت، مکرمت، مکیدت، اول یہ کہ محض اسے نفع دینا خیر پہنچانا مقصود ہو، یہ مستامن معاہد کے لیے بھی حرام ہے، امان و معاہدہ کفِ ضرر کے لیے ہے، نہ کہ اعداء اللہ کو بالقصد ایصال خیر کے واسطے۔ دوم یہ کہ اپنی ذاتی مصلحت مثل مکافات احسان و لحاظ رحم کے لیے کچھ مالی سلوک، یہ معاہد سے جائز، نامعاہد سے ممنوع۔ سوم یہ کہ مصلحت اسلام و مسلمین کے لیے محاربانہ چال ہو، یہ حربی محارب کے واسطے بھی جائز کہ حقیقت بر و صلہ سے اسے علاقہ نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 465، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

امام اہل سنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غیر مسلم کو ہدیہ تحفہ دینے کے متعلق فرماتے ہیں: ”وصیت بھی ہدیہ ہی ہے کہ تملیک عین مجاناً ہے، اور امام محمد جامع صغیر میں صاف فرما چکے کہ ان کے لیے وصیت باطل، تو ہدیہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ مگر اسی فرق سے کہ معاہد کے لیے جائز اور غیر معاہد کے لیے ناجائز، جس طرح خود امام نے سیر کبیر میں اشعار فرمایا، اور کتاب الاصل میں ارشادِ امام نے تو بالکل کشف حجاب فرما دیا کہ فرمایا: حربی کے لیے باطل، پھر فرمایا: مستامن کے لیے جائز (اور موجودہ دور کے کفار حربی ہی ہیں)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 463، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-783

تاریخ اجراء: 14 ذو الحجة الحرام1446 ھ / 11 جون 2025 ء