قادیانیوں سے صدقہ و خیرات لینے کا حکم

قادیانیوں سے صدقہ و خیرات لے سکتے ہیں ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قادیانیوں کی ایک فیکٹری اور کارخانہ ہے، اگر وہ کسی فلاحی ادارے کو عوامِ مسلمین و فقراء و مساکین کے لیے صدقہ و خیرات کے نام پر رقم دیں، یا زندہ و حلال جانور دیں اور مسلمان انہیں ذبح کر کے مسلمانوں میں تقسیم کریں، تو کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قادیانی اپنے عقائدِ باطلہ، مثلاً ختم ِنبوت کاانکار اور انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْکی توہین، وغیرہ کے سبب مرتد ہیں، یعنی دعوی اسلام کرنے کے باوجود بہت سے ضروریاتِ دین کے انکار کے سبب دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور مرتد کفار کی سب سے بدترین قسم ہے، یہاں تک کہ ان کے احکام، کافرِ اصلی(ہندو ،مشرک،وغیرہ) سے بھی سخت ہیں اور مرتدین کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ان کےساتھ میل جول رکھنا، اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، ان سے مدد لینا اور ان کی مدد کرنا، ان کو مسلمانوں کی طرح غسل و کفن دینا، ان کے جنازے کےساتھ جانا وغیرہ سب حرام اور سخت گناہ کے کام ہیں اور قادیانیوں سے اس طرح کی مراعات لینے کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت و مودت کے ساتھ پیش آنا، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہونا، وغیرہ سب ممنوع اُمور خواہی نخواہی پائے جائیں گے، حالانکہ اللہ عزوجل اور رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سے بچنے کا واضح طور پر حکم فرما چکے، لہٰذا مسلمانوں کا قادیانیوں سے فلاحی کاموں کے لیے مفت سامان، رقم یاجانور، وغیرہ لینا اور ان کے ساتھ میل جول رکھنا، سخت ناجائز و گناہ ہے۔

قادیانیوں سے فلاحی کاموں کے لیے مدد لینے میں ایک بہت بڑا دینی مَفْسَدَہْ  ایمان جانے کا خطرہ ہےکہ قادیانیوں کی تبلیغ کا ایک بہت بڑا طریقہ اِسی طرح کی مفت اشیاء یا خدمات دینا ہی ہے اور قادیانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو پہلے مسلمان تھی اور اس طرح کی مفت اشیاء اور فوائد کی وجہ سے ان کے قریب جاکر قادیانی ہوگئی۔ مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے اعتبار سے ان سے مفت اشیاء لینا، ان سے خریدنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور خود خریدنا بھی ممنوع و ناجائز ہے، اس لیے فلاحی کاموں میں خرچ اور محتاجوں کی مدد، اگرچہ بہت اچھا عمل ہے، لیکن اس اچھےعمل کو کرنے کے لیے اتنا بڑا دینی فساداور نقصان اٹھانا شریعت کو ہرگز رَوا نہیں، شریعتِ مطہرہ کاواضح اُصول ہے: درء المفاسد اھمّ من جلب المصالحیعنی مصالح کے حصول سے مفاسد کو ختم کرنا اہم اور ضروری ہے۔(فتاوی رضویہ ،6/ 600 ، ط:رضافاؤنڈیشن )

نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خاتم النبیین ہونے کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا)

 ترجمۂ کنزُالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔ (القرآن الکریم ،پارہ 22 ،سورۃ الاحزاب، آیت40)

مذكوره بالا آیتِ مبارکہ کے تحت ختمِ نبوت کے منکر کا حکم بیان کرتے ہوئے صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:حضور کا آخر ُالانبیاء ہونا قطعی ہے، نصِ قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صِحاح کی بکثرت احادیث تو حدِ تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے (آخری ) نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر اور کافر ، خارج از اسلام ہے۔ (خزائن العرفان، صفحہ783، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

قادیانیوں کے مرتد ہونے کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

لا الہ الا محمد رسول ا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنے کا جو قائل ہو، وہ تو مطلقاً کافر مرتد ہے، اگرچہ کسی ولی یا صحابی کے لیے مانے، لیکن قادیانی تو ایسا مرتد ہے جس کی نسبت تمام علمائے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر یعنی جو اس کے کفر میں شک کرے، تو وہ بھی کافر ہوجائے گا۔)“فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 279، 280، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور(

 کفّار سے میل جول اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کی ممانعت کےمتعلق اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:

(وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ )

ترجمۂ کنزُالعرفان:اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔ (القرآن الکریم، پارہ 7، سورۃ الانعام، آیت68)

مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ ملّا احمد جیون رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1130ھ/1718ء)لکھتے ہیں:

 وان القوم الظالمین یعم المبتدع والفاسق والکافر ، والقعود مع کلھم ممتنع

ترجمہ: آیت میں موجودلفظ ( الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ)بدعتی ،فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے۔ (تفسراتِ احمدیہ ، سورہ انعام، تحت الایۃ68، صفحہ 388، مطبوعہ کوئٹہ )

کفّار سے دور رہنے کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:

(وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ )

 ترجمۂ کنر العرفان :اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں آگ چھوئے گی۔ (القرآن الکریم، پارہ 12، سورہ ھود، آیت113)

مذکورہ بالاآیت کے تحت صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافِروں اور بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول ، رسم و راہ ، مَوَدّت و مَحبت ، ان کی ہاں میں ہاں ملانا، ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ (خزائن العرفان، صفحہ437، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

عام بدمذہب ،مرتدین کے مقابلے میں ہلکا حکم رکھتے ہیں اور عام بدمذہبوں سے بچنے کی نہایت تاکید ہے تو مرتد کا معاملہ تو اور شدید ہے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بدمذہبوں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم ارشاد فرمایا، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:

 فإياكم وإياهم، ‌لا ‌يضلونكم، ولا يفتنونكم

ترجمہ: تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کردیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔(الصحیح المسلم، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء ،جلد1 ،صفحه 33،مطبوعه لاھور)

ایک موقع پر نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:

فلا تجالسوھم ولاتشاربوھم ولاتؤاکلوم ولا تناکحوھم

ترجمہ: نہ تم اُن کے پاس بیٹھو ،نہ ان کے ساتھ کھاؤ ،پیو ، نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرو۔ (کنزالعمّال، جلد6،کتاب الفضائل ، باب ذکر الصحابۃ، صفحہ 246،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے:

  عن جابر بن عبد اللہ قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن مرضوا فلا تعودوهم، وإن ماتوا فلا تشهدوهم، وإن لقيتموهم ‌فلا ‌تسلموا عليهم

 ترجمہ:حضرت جابربن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اگر وہ بیمار ہوجائیں ،تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازوں میں نہ جاؤ اوراگر تم ان سے ملو ، تو انہیں سلام نہ کرو ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر ، صفحہ 105، مطبوعہ لاھور)

مرتدین کے تفصیلی احکام بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتے ہیں:مرتد سے مسلمانوں کو سلام، کلام حرام، میل جول حرام ،نشست وبرخاست حرام، بیمار پڑے، تو اس کی عیادت کو جانا حرام۔(فتاوی رضویہ ،جلد14، صفحہ 298،رضافاؤنڈیشن ،لاہور)

فتاوی مصطفویہ میں ہے: اس (قادیانی )سے سلام ،کلام ، ربط، ضبط اس کے ساتھ کھانا ،پینا راہ رسم رکھنا سب حرام ہے، قال اللہ تعالیٰ:( وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (فتاوی مصطفویہ ، صفحہ 209، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

کفار کے ساتھ ہمدردی، موالات یعنی ان سے مدد لینے یا کرنے کی ممانعت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ فرماتا ہے:

(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ )

 ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (القرآن الکریم ، پارہ 6 ، سورۃ المائدۃ، آیت 51)

مذکورہ بالا آیت کے تحت ابو البرکات امام عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ (سالِ وفات:710ھ/1310ء) لکھتے ہیں: أي:لا تتخذوهم أولياء ‌تنصرونهم وتستنصرونهم وتؤاخونهم وتعاشرونهم معاشرة المؤمنين ثم علل النهي بقوله(بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ) وكلهم أعداء المؤمنين وفيه دليل على أن الكفر كله ملة واحدة

ترجمہ:یعنی کفّار کو دوست اور مددگار نہ بناؤکہ تم ان کی مدد کرو یا اُن سے مدد لواور ان سے بھائی چارہ اختیار کرواور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کرو(کیونکہ یہ سب منع ہے)،پھر اس کی علت بیان فرمائی کہ (وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں) اور تمام کفارمسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس میں دلیل ہے کہ کفر ایک ملت ہے۔ (تفسیر نسفی، جلد1، صفحہ453، مطبوعہ لاہور)

صحیح مسلم، سنن ترمذی،سنن ابوداؤد،سنن ابن ماجہ،مسند احمد بن حنبل اور دیگر کتب ِ احادیث میں ہے،

واللفظ للاوّل: عن عائشة قالت: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لن أستعين ‌بمشرك

ترجمہ:حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:میں ہرگز مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔(الصحیح المسلم،کتاب الجھاد و السیر، باب کراھۃ الاستعانۃ فی الغزو بکافر ،جلد2 ،صفحه 127، مطبوعه لاھور)

امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:موالات مطلقاً ہر کافر ہر مشرک سے حرام ہے …اور معاملتِ مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائزہے،جبکہ اس میں نہ کوئی اعانتِ کفریا معصیت ہو،نہ اضرار اسلام وشریعت(ہو)۔ (فتاوی رضویہ ،جلد14، صفحہ 432، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9255

تاریخ اجراء09شعبان المعظم 1446ھ/08فروری 2025ء