اولیاء اللہ کیلئے نوافل ادا کرنے کا شرعی حکم

اولیاء اللہ کے لئے نوافل ادا کرنا

دار الافتاء  اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا داتاصاحب کے لیے نوافل ادا کیے جاسکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

داتا صاحب کے لیے نوافل ادا کیے جاسکتے ہیں کہ کسی کےلیے نوافل پڑھنا در حقیقت اسے نوافل کا ثواب پہنچانا ہے اور مسلمان زندہ ہو یا فوت شدہ، اسے کسی بھی نیک کام مثلاً نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ کا ثواب ایصال کرنا جائز ہے۔

نفل نماز کا ثواب بھی ایصال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حج کو جانے والوں سے فرمایا:

’’من يضمن لی منكم ان يصلی لی فی مسجد العشار ركعتين، او اربعا، و يقول هذه لابی هريرة‘‘

تم میں سے کون مجھے اس چیز کی ضمانت دیتا ہےکہ وہ مسجد عشار میں میرے لئے دو یا چار رکعت پڑھے اور کہے یہ ابوہریرہ کے لئے ہیں۔(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرۃ، رقم الحدیث 4308، ج 4، ص 113، مطبوعہ بیروت)

اس حدیثِ پاک کےتحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ مبارک مقامات پر عبادت کرنا، نماز ادا کرنا زیادہ ثواب کا موجب ہے، اور بدنی عبادت کا ثواب دوسرے کو دینا بھی جائز ہے، اور اکثر علماء کی یہی رائے ہے، رہا معاملہ عبادات مالیہ کا تو وہاں ثواب کا بخشنا بالاتفاق جائز ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات (مترجم)، ج 06، ص 425، فرید بک سٹال، لاہور)

ہر نیکی کا ثواب ایصال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

”الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج و قراءة القرآن و الأذكار و زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام و الشهداء و الأولياء و الصالحين و تكفين الموتى و جميع أنواع البر“

یعنی اس باب میں قاعدہ یہ ہے کہ انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کر دے، وہ عمل نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا ان کے علاوہ،جیسا کہ حج اور تلاوتِ قرآن اور اذکاراور انبیائے کِرام علیہم الصلاۃ و السلام، شہداء، اولیاء اور صالحین کے مزارات کی زیارت اور مردوں کو کفن دینا اور نیک کاموں کی تمام اقسام۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب المناسک، ج 01، ص 257، مطبوعہ پشاور)

رد المحتار اور بحر الرائق میں ہے

(و النظم للآخر)" من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات و الأحياء جاز و يصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع و بهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا۔۔۔ لا فرق بين الفرض و النفل"

یعنی کسی نے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیااور اس کا ثواب کسی مردے یا زندہ کو بخش دیا تو یہ جائز ہے اور اہلسنت والجماعت کے نزدیک ان کو ثواب ملے گا، بدائع میں بھی ایسے ہی ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ جسے ثواب بخشا گیاوہ زندہ ہو یا مردہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یونہی جس عمل کا ثواب بخشا گیا وہ نفل ہو یا فرض، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (البحر الرائق، کتاب الحج، ج 03 ،ص 63 ،64، دار الكتاب الإسلامي)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-3796

تاریخ اجراء: 09 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 07 مئی 2025 ء