
مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3758
تاریخ اجراء: 22 شوال المکرم 1446 ھ/21اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا باپ کے چچا کے بیٹے سے نکاح کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
والد کے چچا کے بیٹے یعنی باپ کے چچا زاد بھائی سے نکاح کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ رضاعت وغیرہ کوئی اور وجہ ممانعت نہ ہو؛ کیونکہ اس کی حرمت شرع سےثابت نہیں کہ حرمت کے اصولوں میں یہ قاعدہ مذکورہ ہے کہ اپنی اصل بعیدکی فرع بعیدحلال ہوتی ہے (جبکہ ممانعت کی کوئی اوروجہ نہ ہو) اورباپ کے چچاکابیٹا،اپنی اصل بعیدیعنی پڑداداکی فرع بعیدہے یعنی پڑداداکی اولادکی اولادہے، پس اگرممانعت کی کوئی دوسری وجہ نہ ہوتواس سے نکاح حلال ہے ۔
کس سے نکاح جائز ہے اور کس سے نہیں ؟ اس حوالے سے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ”جزئیت کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اپنی فرع اور اپنی اصل کتنی بعید ہو مطلقاً حرام ہے، اور اپنی اصل قریب کی فرع اگرچہ بعیدہو حرام ہے، اور اپنی اصل بعید کی فرع بعید حلال، اپنی فرع جیسے بیٹی پوتی نواسی کتنی ہی دور ہو اور اصل ماں دادی نانی کتنی ہی بلند ہو اور اصل قریب کی فرع یعنی اپنی ماں اور باپ کی اولاد یا اولادکی اولاد کتنی ہی بعید ہو اور اصل بعید کی فرع قریب جیسے اپنے دادا، پردادا، نانا ، دادی، پردادی، نانی، پرنانی کی بیٹیاں یہ سب حرام ہیں، اور اصل بعید کی فرع بعید جیسے انہی اشخاص مذکورہ آخر کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصل قریب کی نوع نہ ہوں حلال ہیں۔"(فتاوی رضویہ، جلد11،صفحہ516، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں: ”اپنے باپ کی چچا زاد بہن سے نکاح کر سکتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، اگر کوئی دوسری وجہ مانع نکاح نہ ہو۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1،صفحہ 526،اکبر بک سیلرز ،لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم