بیوی کا جسم چومنے کی حد اور شرعی حکم

بیوی کے بدن کوبوسہ دینے کے متعلق تفصیل

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

مرد اپنی بیوی کا کتنا حصہ چوم سکتا ہے اور کتنا حصہ چومنے کی اجازت نہیں ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شریعتِ مطہرہ نے فطری رغبت، طبعی لذت اور افزائش نسل وغیرہ کے پیشِ نظر شرم و حیا اور حدود شرع کی پاسداری کے ساتھ میاں، بیوی کو باہمی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس تعلق میں بوسہ لینا (چومنا) بھی شامل ہے، لہذا شوہر اپنی بیوی کے تمام بدن کا بوسہ لے سکتا ہے، سوائے شرمگاہ کے؛ کہ یہ خلاف مروت، طبعاً قابل نفرت اور اسلامی حیا کی اعلی اقدار کے مخالف ہے، جبکہ اسلام ہر حال میں شرم و حیا اپنائے رکھنے کا درس دیتا ہے، یہاں تک کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا، جائز ہونے کے باوجود نا مناسب اور خلاف ادب قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے! یہ عمومی حکم تھا، جبکہ مخصوص ایام میں بیوی کی ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک کے جسم کو بغیرکسی موٹے حائل کے (جس کی وجہ سے جسم کی گرمی محسوس نہ ہو) چھونا اور نفع اٹھانا ویسے ہی جائز نہیں بلکہ اتنے حصے کو شہوت سے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں، البتہ اس کے علاوہ تمام بدن سے ہر قسم کا نفع اٹھانا اور بوس و کنار کرنا اس حالت میں بھی جائز ہے۔

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340 ھ / 1921 ء) لکھتے ہیں:

"یجوز للرجل التمتع بعرسه کیف ما شاء من رأسها الی قدمها الا ما نهی الله تعالی عنه... اما التقبیل فمسنون مستحب یؤجر علیه ان کان بنية صالحة"

ترجمہ: مرد کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیوی کے سر سے لے کر پاؤں تک جیسے چاہے لطف اندوز ہو سوائے ان امور کے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ رہا بوسہ دینا تو وہ مسنون و مستحب عمل ہے، اور اگر نیک نیت سے ہو تو اس پر اجر و ثواب ملتا ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 267- 268، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد وغیرہ کثیر کتب احادیث میں ہے:

”الحياء شعبة من الإيمان“

ترجمہ: شرم و حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ (صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب أمور الإيمان، جلد 1صفحہ 12، حدیث 9، دار ابن كثير، دمشق)

صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالے سے مشکوۃ المصابیح میں ہے

"و عن عمران بن حصين قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: الحياء لا يأتي إلا بخير . و في رواية: الحياء خير كله"

ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حیا بھلائی ہی لاتی ہے۔" اور ایک روایت میں ہے: "حیا ساری کی ساری خیر ہے۔ (مشكاة المصابيح، ‌‌كتاب الآداب، باب الرفق و الحياء، جلد 3، صفحہ 1407، حدیث 5071، المكتب الإسلامي، بيروت)

امام شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 483 ھ/ 1090 ء) لکھتے ہیں:

”هذا الأولى أن لا ينظر كل واحد منهما إلى عورة صاحبه لحديث عائشة رضي الله عنها قالت: ما رأيت من رسول الله صلى الله عليه و سلم و لا رأى مني مع طول صحبتي إياه“

ترجمہ: یہی بہتر ہے کہ شوہر اور بیوی میں سے کوئی بھی اپنے ساتھی کی شرمگاہ کی طرف نظر نہ کرے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پاک کی وجہ سے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ میرے طویل ساتھ کے باوجود میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ستر کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ستر دیکھا۔ (المبسوط للسرخسي، كتاب الاستحسان، نظر الرجل إلى المرأة، جلد 10، صفحہ 148، دار المعرفة، بیروت)

علامہ ابو بكر بن علی الحدادی الزبیدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 800 ھ/ 1397 ء) لکھتے ہیں:

”قال في الينابيع يباح للرجل أن ينظر إلى فرج امرأته... إلا أنه ليس من الأدب“

ترجمہ: الینابیع میں فرمایا: مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کی شرمگاہ کو دیکھے، مگر یہ سلیقہ و ادب میں سے نہیں۔ (الجوهرة النيرة، كتاب الحظر و الإباحة، جلد 2، صفحه 285، المطبعة الخيرية)

فتاوی رضویہ میں ہے "کلیہ یہ ہے کہ حالت حیض و نفاس میں زیر ناف سے زانو تک عورت کے بدن سے بلا کسی ایسے حائل کے جس کے سبب جسم عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے تمتع جائز نہیں، یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھونا بلا شہوت بھی جائز نہیں اور اس سے اوپر نیچے کے بدن سے مطلقاً ہر قسم کا تمتع جائز۔" (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحه 353، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367 ھ/ 1948 ء) لکھتے ہیں: "اس حالت میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن سے مرد کا اپنے کسی عضو سے چھونا جائز نہیں جب کہ کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو شہوت سے ہویا بے شہوت اور اگر ایسا حائل ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوگی تو حرج نہیں۔ ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حرج نہیں۔ یوہیں بوس و کنار بھی جائز ہے۔" (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 382، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3903

تاریخ اجراء: 08 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 05 جون 2025 ء