
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-9264
تاریخ اجراء:11 شعبان المعظم 1446 ھ/10 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید کاہندہ کے ساتھ نکاح ہوا اور ہندہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے، زید نے اس کی سگی بھانجی خالدہ سے نکاح کر لیا اور ازدواجی تعلق بھی قائم کر لیا اور ابھی تک میاں بیوی کے حیثیت سے اکھٹے رہ رہے ہیں، اس کو چھوڑا بھی نہیں، تو شرعاًایسے شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیوی جب تک نکاح یا عدت میں ہو، شوہر کے لیے اپنی بیوی کی سگی بھانجی سے نکاح کرنا ناجائز و حرام ہے اور یہ ممانعت قرآنِ کریم، احادیثِ مبارکہ اور اُصولِ شرعیہ سےثابت ہے، لہٰذا بیان کردہ صورت میں زید اپنی بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی سگی بھانجی خالدہ سے نکاح کرنے کےسبب ناجائز وحرام اور سخت گناہ کا مرتکب ہوا، اُن دونوں پر لازم ہے کہ اللہ کریم کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ متارکہ کریں اور چونکہ یہ نکاح اصلا ًہی فاسد واقع ہوا ہے، اس لئے متارکہ کا اختیار دونوں ہی کو ہے۔
متارکہ کا طریقہ یہ ہو گاکہ زید، خالدہ کو کہے کہ میں نے تمہیں چھوڑا یا خالدہ، زید کو کہے کہ میں تم سے جدا ہوتی ہوں، پھر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اور زید پر خالدہ کو طے شدہ مہر اور مہر مثل میں سے جو کم ہو، وہ دینا بھی لازم ہے، (مہر ِمثل سے مراد عورت کے والد کی طرف سےخاندان کی اُس جیسی عورتوں کا جو مہر مقرر ہوا، مثلاً: اُس کی بہن، پھوپی، چچا کی بیٹی، وغیرہا کا مہر، وہ اِس عورت کے ليے مہرِ مثل ہے۔) نیز متارکہ کے بعد خالدہ پر عدت بھی لازم ہے، عدت گزار کر جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے، لیکن جب تک اس کی عدت نہیں گزرے گی، زید کے لیے اپنی پہلی بیوی ہندہ سے ہمبستری کرنا بھی جائزنہیں۔
اور اگر یہ جُدا نہ ہوں، تو برادری والوں اور باقی تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا اور ان کو اپنی غمی خوشی میں شریک کرنااور ان سے میل جول رکھناختم کر دیں، جب تک کہ یہ اپنے اس قبیح عمل سے توبہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔
خالہ اور بھانجی کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت قرآن کریم، احادیثِ مبارکہ اور اُصولِ شرعیہ سے ثابت ہے، چنانچہ قرآن کریم کی مختلف نکاحوں کے متعلق حرمت والی آیت کے متعلق کلام کرتے ہوئے علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”أما الآية فيحتمل أن يكون معنى قوله تعالى: ﴿وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ﴾ (النساء: 24) أي: ما وراء ما حرمه اللہ تعالى، و الجمع بين المرأة و عمتها و بنتها و بين خالتها مما قد حرمه اللہ تعالى على لسان رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم الذي هو وحي غير متلو على أن حرمة الجمع بين الأختين معلولة بقطع الرحم، و الجمع ههنا يفضي إلى قطع الرحم، فكانت حرمة ثابتة بدلالة النص فلم يكن ما وراء ما حرم في آية التحريم“ ترجمہ: بہر حال یہ آیت قرآنی (اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں) یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ان کے علاوہ حلال ہیں اور عورت کو اس کی پھوپھی، بیٹی یا خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی زبان سے حرام فرمایا ہے جو کہ وحی غیر متلو ہے، اس طور پر کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی حرمت قطعِ رحمی کی علت سے معلول ہے (اور ان کی ممانعت نصِ قرآنی سے بصراحت ثابت ہے )اور یہاں (خالہ اور بھانجی کو )جمع کرنابھی قطعِ رحمی کی طرف لے جاتا ہے، لہٰذا ( وہی علت یہاں پائی جانے کی وجہ سے ) خالہ اور بھانجی کو جمع کرنے کی حرمت بھی قرآن کریم کی دلالۃ النص سے ثابت ہے اور یہ آیتِ تحریم میں حرام کی گئی عورتوں سے باہر نہیں ہے۔(بدا ئع الصنائع، کتاب النکاح، فصل فی بیان بعض المحرمات، جلد 3، صفحہ 437، مطبوعہ کوئٹہ)
صحیح بخاری شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے، حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں: ”نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم أن تنکح المرأة على عمتهاأو على خالتها“ ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نےپھوپھی کےنکاح میں ہوتے ہوئے، اس کی بھتیجی سےاورخالہ کےنکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بھانجی کےساتھ نکاح کرنےسےمنع فرمایا۔ (الصحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لا تنکح المرأۃ علی عمّتھا، جلد 2، صفحہ 272، مطبوعہ لاھور)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ/ 1921 ء) لکھتے ہیں: ”اپنی زوجہ کی بھانجی،تو جب تک زوجہ اس کے نکاح میں ہے،ا س کی بھانجی سے نکاح حرام ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ 271، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367 ھ/ 1947 ء) لکھتے ہیں: ”وہ دو عورتیں کہ اُن میں جس ایک کو مرد فرض کریں، دوسری اس کے ليے حرام ہو (مثلاً دو بہنیں کہ ایک کو مرد فرض کرو تو بھائی، بہن کا رشتہ ہوا یا پھوپی، بھتیجی کہ پھوپی کو مرد فرض کرو تو چچا، بھتیجی کا رشتہ ہوا اور بھتیجی کو مرد فرض کرو تو پھوپی، بھتیجے کا رشتہ ہوا یا خالہ،بھانجی کہ خالہ کو مرد فرض کرو تو ماموں، بھانجی کا رشتہ ہوا اور بھانجی کو مرد فرض کرو تو بھانجے، خالہ کارشتہ ہوا) ایسی دو عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کر سکتا، بلکہ اگر طلاق دے دی ہو، اگرچہ تین طلاقیں، تو جب تک عدّت نہ گزرلے، دوسری سے نکاح نہیں کرسکتا۔“(بھارِ شریعت، جلد 2، حصہ 7، صفحہ 27، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
محارم کو ایک نکاح میں جمع کرنے سے نکاح ،فاسد اور متارکہ ضروری ہونے اور ہمبستری کے بعد مہرِ مقرر یا مہرِ مثل میں سے جو بھی کم ہو، وہ لازم ہونے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے: ”ان تزوجھما فی عقدتین فنکاح الاخیرۃ فاسد و یجب علیہ ان یفارقھا ولو علم القاضی بذلک یفرق بینھما فان فارقھا قبل الدخول لایثبت شیء من الاحکام وان فارقھا بعدالدخول فلھا المھر ویجب الاقل من المسمی ومن مھر المثل وعلیھا العدۃ ویثبت النسب ویعتزل عن امرأتہ حتی تنقضی عدۃ اختھا کذافی محیط السرخسی“ ترجمہ: اگر دوبہنوں سے علیحدہ علیحدہ نکاح کیا تو دوسری کانکاح فاسد ہے اور اس پر مفارقت لازم ہے اور اگر قاضی کویہ معلوم ہو تو وہ دونوں میں تفریق کردے، اگر دوسری کو دخول سے قبل علیحدہ کردیا، تو نکاح کے احکام میں سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوگا اور اگر دخول کے بعد جُدا کیا، تو پھر مہر مثل اور مہرِ مقررہ میں سے جو کم ہو وہ واجب ہوگا اور عدت لازم ہوگی اور اولاد کا نسب بھی ثابت ہو گا اورپہلی سے اس وقت تک علیحدگی اختیار کرے جب تک دوسری بہن کی عدت نہ گزر جائے، محیط سرخسی میں یونہی ہے۔(الفتاوی الھندیہ، جلد 1، صفحہ 277، مطبوعہ کوئٹہ)
مہر ِمثل کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں: ”عورت کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اُس کے لیے مہر مثل ہے، مثلاً :اس کی بہن، پھوپھی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔“(بھارِ شریعت، جلد 2، حصہ 7، صفحہ 71، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”اگر دونوں سے ایک ساتھ نکاح کیا دونوں حرام، اور اگر آگے پیچھے کیا توپہلی کا نکاح بے خلل، دوسری کا حرام، پھر جب دوسری سے قربت کی پہلی سے قربت بھی حرام ہوگئی، جب تک اسے جدا کرکے عدت نہ گزر جائے اولادیں بہر حال ولد الحرام ہیں، جیسے وہ نطفہ جو حالتِ حیض میں ٹھہرا، مگر ولد الزنا نہیں، زیدکا ترکہ ان سب اولاد کو ملے گا۔ ہاں! دونوں سے معاً نکاح کیا دونوں زوجہ ورنہ پچھلی ترکہ نہ پائے گی،یہ سب اس صورت میں ہے کہ دونوں سے نکاح کیاہو اور اگر زوجہ نکاح میں ہے اور سالی سے زنا کیا تو زوجہ سے قربت بھی حرام نہ ہوگی، نہ اس کی اولاد ولد الحرام ہوگی، سالی سے جو بچے ہوں گے، ولد الزنا ہوں گے اور زید کا ترکہ نہ پائیں گے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 271 ،272، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)
مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی متارکہ کا اختیار ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”یہاں نہ قاضی کی حاجت، نہ متارکہ شوہر کی ضرورت کہ نکاح راساً فاسد واقع ہوا، عورت تنہا اس کے فسخ کا اختیار رکھتی ہے، شوہر سے کہہ دے میں نے اس حرام کو چھوڑا، پھر اگر مجامعت نہ ہوئی، تو ابھی، ورنہ بعدِ عدت جس سے چاہے نکاح کرلے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 11 ،صفحہ 444، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم