بیوی کے فوت ہونے کے بعد اس کی بہن سے نکاح کا حکم

بیوی کے فوت ہونے سے کتنی دیر بعد اس کی بہن سے شادی کر سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:7555-Pin

تاریخ اجراء:21 رجب المرجب  1446 ھ/22 جنوری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ ایک شخص کی زوجہ کا انتقال ہو گیا، تو کیا وہ اپنی مرحومہ زوجہ کی سگی بہن کے ساتھ فوری طور پر نکاح کر سکتا ہے؟ یا اسے کچھ مدت انتظار کرنا ضروری ہے جیسا کہ بیوی کو طلاق دی ہو، تو عورت کی عدت تک کا انتظار کرنا ہوتا ہے،  پھر اُس کی بہن سے نکاح کا جواز ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی شخص کی زوجہ کا انتقال ہو جائے ، تو  شرعی طور پر تو انتقال  کے بعد سے  ہی  سالی کے ساتھ نکاح  کا جواز ثابت ہوجاتا ہے، کسی خاص مدت کا انتظار کرنا لازم نہیں ہے، حتی کہ اگرزوجہ کے انتقال کے ایک دن بعدبھی  وہ سالی  کے ساتھ نکاح کر لے، تو شرعی طور پر جائز و درست ہو گا، البتہ اس طرح  کرنا عرفاً و اخلاقاً بہت معیوب سمجھا جاتا اور انگشت نمائی کا سبب ہے، لہٰذا حتی الامکان عرف  وعادت کی مخالفت سے بچنا چاہیے، سوائے اس کے کہ کوئی شدید حاجت درپیش ہو۔

   ذکر کردہ شرعی حکم کی تفصیل یہ ہے کہ   قرآن کریم کے صریح حکم کے مطابق دو بہنوں کو ایک عقد میں جمع کرنا، ناجائز و حرام ہے۔ اگر زوجہ   ابھی نکاح میں ہے، تو اُس کی بہن کے ساتھ نکاح کا حرام ہونا  تو بالکل واضح ہے  اور اگر عورت کو طلاق دے دی، لیکن ابھی عدت چل رہی ہے، توبھی اُس کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا، ناجائز و حرام ہے، اس وجہ سے کہ جب تک عدت باقی ہے، نکاح کے بعض احکام جیسے نفقہ وغیرہ لازم ہیں، تو گویا ابھی بالکلیہ (مکمل طور پر) نکاح ختم نہیں ہوا، لہٰذا اس صورت میں بھی اُس کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا قرآن کریم کے اس حکمِ ممانعت کے تحت داخل ہو گا، لیکن اگر زوجہ کا انتقال ہو جائے، توفوراً  نکاح بالکلیہ  ختم ہوجاتا ہے کہ  نکاح کا کوئی اثر بھی  باقی نہیں رہتا، لہٰذا زوجہ کے فوت ہوتے ہی  اُس کے لیے سالی کے ساتھ نکاح  کا جواز ثابت ہوجائے گا۔

   دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ  ارشاد  فرماتا ہے: ﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِترجمہ کنزالایمان: ”اور دو بہنیں اکٹھی کرنا(تم پر حرام ہے)۔“(پارہ 04، سورۃ النساء، آیت 23)

   علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ تبیین الحقائق میں فرماتے ہیں: ”لا یحل لہ ان یتزوج باختھا“ ترجمہ :زوجہ(کے نکاح میں ہوتے ہوئے، اُس)  کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا حلال نہیں۔(تبیین الحقائق، ج3، ص 32، مطبوعہ قاھرہ)

   امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں  :”بموجودی زوجہ سالی سے نکاح حرام ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 317، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   عورت کو طلاق دی، تو جب تک عورت عدت میں ہو، اُس کی بہن سے نکاح کرنا، جائز نہیں۔ علامہ برہان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر المرغینانی علیہ الرحمۃ  ہدایہ شریف میں فرماتے ہیں :و إذا طلق امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا لم يجز له أن يتزوج بأختها حتى تنقضي عدتها ۔۔۔۔ و لنا ان نکاح الاولیٰ  قائم لبقاء بعض احکامہ کالنفقۃ و المنع“ ترجمہ :اور جب کسی شخص نےاپنی زوجہ کو طلاق بائن دی یا طلاق رجعی دی، تو اُس کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا، جائز نہیں حتی کہ اُس کی عدت گزر جائے۔۔۔۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ پہلا نکاح ابھی قائم ہے، اس وجہ سے کہ اس کے بعض احکام باقی ہیں جیسے نفقہ، اپنے آپ کو شوہر کے گھر روک کر رکھنا۔(الهداية، ج 1، ص 218، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   امامِ اہلسنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ ”عالم حیاتِ زوجہ میں حقیقی سالی یا رشتہ کی سالی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”تاحیاتِ زوجہ جب تک اُسے طلاق ہوکر عدت نہ گزرجائے اُس کی بہن سے جو اس کے باپ کے نطفے یا ماں کے پیٹ سے یا دودھ شریک ہے، نکاح حرام ہے۔ قال اللہ تعالیٰ "وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ(حرام کیا گیا ہے کہ تم دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرو۔)"۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 315 تا 314، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   زوجہ کے انتقال کے بعد بغیر کسی عدت / مدت  کا انتظار کئے سالی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔ مجمع الانہر شرح ملتقی البحر میں ہے: لو ماتت المراۃ فتزوج باختھا بعد یوم جاز ترجمہ :اگر زوجہ فوت ہو گئی، ایک دن بعد اُس کی بہن سے نکاح کر لیا، تو  یہ جائز ہے۔(مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر، ج 1، ص 324، ار إحياء التراث العربی، بيروت)

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”ماتت امراتہ لہ التزوج باختھا بعد یوم من موتھا کما فی ا لخلاصۃ عن الاصل و کذا فی المبسوط لصدر الاسلام و المحیط للسرخسی و البحر و التتار خانیۃ و غیرھا من الکتب المعتمدۃ و اما ما عزی الی النتف من وجوب العدۃ فلا یعتمد علیہ“ ترجمہ: ایک شخص کی زوجہ فوت ہو گئی، تو اُس کے لیے اپنی زوجہ کی موت کے ایک دن بعد  اُس کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا، جائز ہے جیسا کہ خلاصہ میں اصل سے منقول ہے اور اسی طرح  امام صدر الاسلام کی مبسوط اور امام سرخسی کی محیط میں اور بحر، تتارخانیہ وغیرہ معتمد کتابوں میں موجود ہے  اور جو نتف کی طرف وجوبِ عدت کا قول منسوب کیا گیا، وہ قابلِ اعتماد نہیں ہے۔(رد المحتار، ج 3، ص 38، دار الفکر، بیروت)

   عرف و عادت سے ہٹ کرکوئی  کام کرنے سے بچنا چاہیے۔ حدیثِ  پاک  میں ہے: ”ایاك ومایسوء الاذن“ ترجمہ: کانوں کے لئے تکلیف دہ بات سے بچو۔(مسند احمد بن حنبل، ج 7، ص 7، رقم الحدیث 17156:، دارالکتب العلمیہ بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:” عادتِ قوم کی مخالفت موجب طعن و انگشت نمائی وانتشار ظنون وفتح باب غیبت ہوتی ہے۔۔۔۔ائمہ دین فرماتے ہیں: الخروج عن العادۃ شھرۃ و مکروہ (معمول کے خلاف کرنا شہرت اور مکروہ ہے)“(فتاوی رضویہ، ج 07، ص 416،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم