دو عیدوں کے درمیان نکاح کا شرعی حکم

دو عیدوں کے درمیان نکاح کرنا

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3643

تاریخ اجراء:03رمضان المبارک1446ھ/04مارچ2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا دونوں عیدوں کے درمیان نکاح ہوجاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! دو عیدوں کے درمیان نکاح ہوجاتا ہے اور دو عیدوں کے درمیان نکاح کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں، خودنبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ماہ شوال المکرم میں نکاح فرمایا۔

   صحیح مسلم میں ہے ”عن عائشة، قالت: «تزوجني رسول الله صلى الله عليه و سلم في شوال، و بنى بي في شوال، فأي نساء رسول الله صلى الله عليه و سلم كان أحظى عنده مني؟»، قال: «و كانت عائشة تستحب أن تدخل نساءها في شوال»“ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شوال میں میرے ساتھ نکاح کیا  اور شوال ہی میں میرے ساتھ ہمبستر ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی؟ (عروہ) نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ اپنی (رشتہ دار اور زیر کفالت) عورتوں کی رخصتی شوال میں کریں۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث 1423، ص  529، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   بزازیہ میں ہے "و النكاح بين العيدين جائز و كره بعضھم الزفاف، و المختار أنه لا يكره «لأنه - عليه الصلاة و السلام - تزوج بالصديقة في شوال و بنى بها فيه» وتأويل قوله - عليه الصلاة والسلام - «لا نكاح بين العيدين» إن صح أنه - عليه الصلاة والسلام - كان رجع من العيد في أقصر أيام الشتاء الی   الجمعة فعورض علیہ الانکاح فقاله حتى لا يفوته الرواح في الوقت الأفضل إلى الجمعة. اهـ" ترجمہ: اور دوعیدوں کے درمیان نکاح جائزہےاوربعضوں نے رخصتی کومکروہ قراردیا ہے، اور مختار یہ ہے کہ مکروہ   نہیں کیونکہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی رخصتی ہوئی۔ اور حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان "دو عیدوں کے مابین نکاح نہیں" اگر صحیح بھی ہو تو اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ و السلام سردیوں کے سب سے چھوٹے دن میں عیدکی نمازکے بعدجمعہ کے لیےچلے تو آپ علیہ الصلوۃ و السلام سے نکاح پڑھانے کاعرض کیاگیاتو اس پر آپ  علیہ الصلوۃ و السلام نےایسافرمایا تاکہ جمعہ کے لئے افضل وقت میں جانا فوت نہ ہو۔ (فتاوی بزازیہ، کتاب النکاح، ج 01، ص 137، مطبوعہ: کراچی)

   فتاوی رضویہ شریف میں ہے" نکاح کسی مہینے میں منع نہیں۔" (فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 265، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم