حق مہر کی شرعی اور سنت مقدار

حق مہر کی شرعی مقدار اور سنت مہر کی تفصیل

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی لحاظ سے نکاح کا حق مہر کتنا ہے اور سنت کے مطابق حق مہر کتنا بنتاہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شرعی لحاظ سے نکاح میں حق مہر کم از کم دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی (30 گرام 618 ملی گرام) ہے، اگر چاندی کے علاوہ کوئی اور چیز مہر میں دی جائے تو عقدِ نکاح کے وقت اُس چیز کا دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشہ چاندی کی قیمت کے برابر ہونا ضروری ہے، یہ مقدار کم سے کم ہے، اس سے کم مقدار چاندی یا اس سے کم قیمت کی کوئی چیز مہر نہیں ہوسکتی۔ ہاں البتہ اس مقدار سے زیادہ جتنا چاہیں مقرر کرسکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ جہاں تک سنت کے مطابق حق مہر کی مقدار ہے، تو روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور زوجہ حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ، بقیہ تمام شہزادیوں اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اجمعین کا مہر پانچ سو (500) درہم تھا، یعنی 131 تولے اور 3 ماشے چاندی جو کہ تقریباً (1530 گرام 9 ملی گرام) بنتا ہے، مہر کی یہ مقدار سنت ہے، اگر حیثیت و استطاعت ہو تو مہر یہ مقدار مقرر کرنا مستحب ہے،ورنہ بہتر یہی ہے کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق اتنا مہر مقرر کرے کہ جو وہ آسانی اور سہولت کے ساتھ ادا کرسکتا ہو،اُس پر بوجھ نہ ہو۔

مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

اقل المھر عشرۃ دراھم مضروبۃ أو غیر مضروبۃ۔۔۔ و غیر الدراھم یقوم مقامھا باعتبار القیمۃ وقت العقد فی ظاھر الروایۃ

ترجمہ: کم از کم مہر دس درہم ہے خواہ یہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے ہوں اور اور درہم کے علاوہ کوئی اور چیز مہر میں دی جائے تو ظاہر الروایہ کے مطابق وہ نکاح کے وقت کی قیمت کے اعتبار سے اس کے قائم مقام ہوگی۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 302، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ’’کم سے کم مہر دس ہی درہم ہے یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی۔۔۔ اور چاندی کے علاوہ اور کوئی چیز دے تو دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی کی قیمت معتبر ہوگی‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 12، صفحہ 162، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ ہی میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: "مہر شرعی کی کوئی تعداد مقرر نہیں، صرف کمی کی طرف حد معین ہے کہ دس درہم سے کم نہ ہو اور زیادتی کی کوئی حد نہیں، جس قدر باندھا جائے گا لازم آئے گا‘‘۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 12، صفحہ 165، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی فیض الرسول میں فرماتے ہیں: ”دس درہم چاندی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ کے برابر ہوتی ہے، لہٰذااتنی چاندی نکاح کے وقت بازار میں جتنے کی ملے کم سے کم اتنے روپے کا مہر ہوسکتا ہے، اس سے کم نہیں ہوسکتا۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 712، شبیر برادرز، لاہور)

ازواج مطہرات کے مہر کی مقدار پانچ سو درہم تھی، چنانچہ صحیح مسلم شریف، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن کبری للبیہقی، سنن دارمی، مسند احمد، مستدرک للحاکم وغیرہ بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے:

و اللفظ لمسلم: عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه قال: «سألت عائشة زوج النبي صلى اللہ عليه وسلم كم كان صداق رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم؟ قالت: كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية و نشا. قالت: أتدري ما النش؟ قال: قلت: لا. قالت: نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم لأزواجه»

ترجمہ: حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرمایا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج کا مہر کتنا ہوتا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان کا مہر بارہ اوقیہ اور نَش تھا۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو نَش کیا ہے؟میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: آدھا اوقیہ۔ تو یہ کل ملا کر پانچ سو درہم ہیں۔ تو یہ رسول اللہ ﷺ کا اپنی ازواج مطہرات کے لیے مہر تھا۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 1042، رقم الحدیث: 1426، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

اس کے تحت شرح النووی علی مسلم میں ہے:

و استدل أصحابنا بهذا الحديث على أنه يستحب كون الصداق خمسمائة درهم والمراد في حق من يحتمل ذلك فإن قيل فصداق أم حبيبة زوج النبي صلى الله عليه و سلم كان أربعة آلاف درهم وأربعمائة دينار فالجواب أن هذا القدر تبرع به النجاشي من ماله إكراما للنبي صلى اللہ عليه وسلم لا أن النبي صلى اللہ عليه وسلم أداه أو عقد به و اللہ أعلم

ترجمہ: ہمارے ائمہ نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ مہر کا پانچ سو درہم ہونا مستحب ہے، اورمراد یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ نبی ﷺ کی زوجہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر تو چار ہزار درہم یا چار سو دینار تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اتنی مقدار نجاشی (حبشہ کے بادشاہ) نے نبی ﷺ کی عزت و اکرام کے طور پر اپنے مال سے بطور ہدیہ ادا کی تھی، نہ کہ یہ مہر نبی ﷺ نے خود مقرر فرمایا، یا اس کے ساتھ عقد کیا تھا۔و اللہ اعلم۔ (شرح النووی علی مسلم، جلد 9، صفحہ 215، دار إحياء التراث العربي – بيروت)

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے:

عن يحيى بن سعيد، قال: حدثني محمد بن إبراهيم، قال: «كان صداق بنات النبي صلى اللہ عليه وسلم وصداق نسائه خمس مائة درهم»

ترجمہ:یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم نے بیان کیا فرمایا کہ نبی ﷺ کی بیٹیوں اور ازواج کا مہر پانچ سو درہم تھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 3، صفحہ 493، رقم الحدیث: 16373، مطبوعہ ریاض)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’عامہ ازواجِ مطہرات و بنات مکرمات حضور پُر نور سیّد الکائنات علیہ و علیہن افضل الصلوٰۃ و اکمل التحیات کا مہر اقدس پانچ سودرہم سے زائد نہ تھا۔۔۔ مگر اُم المومنین اُمِّ حبیبہ بنت ابی سفیان خواہر جناب امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کہ ان کا مہر ایک روایت پر چار ہزار درہم۔۔۔دوسری میں چار ہزار دینار تھا

کما فی المستدرک صححہ الحاکم و اقرہ الذھبی و لا یخالف ھذا ما مر من حدیثی ام المؤمنین و امیر المؤمنین رضی ﷲتعالٰی عنھما فان ھذہ الامھارلم یکن من رسول ﷲصلی ﷲتعالٰی علیہ و سلم بل من ملک الحبشۃ سیّد نا النجاشی رضی ﷲتعالٰی عنہ۔

جیسا کہ مستدرک میں امام حاکم نے اس کی تصحیح کی اورذہبی نے اس کوثابت مانا، اور یہ حضرت ام المؤمنین اور عمر فاروق رضی اﷲتعالٰی عنہما سے مروی کا مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ مہر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر نہیں کیا بلکہ حبشہ کے بادشاہ حضرت سیّدنا نجاشی رضی اﷲتعالٰی عنہ نے مقرر کیا تھا۔(ت) اور حضرت بتول زہرا رضی اﷲتعالیٰ عنہا کا مہر اقدس چار سو مثقال چاندی۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 135، 136، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اوپر فتاوی رضویہ کے جزئیہ میں دوسری روایت کے مطابق چار ہزار دینار لکھا ہے جبکہ درست چار سو دینارہے، یہاں کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کتب حدیث میں

أربع مائة دينار

یعنی چار سو دینار کے الفاظ موجود ہیں۔ چنانچہ مستدرک للحاکم جس کا حوالہ خود اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے دیا،اس کی روایت میں ہے:

بعث رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم عمرو بن أمية الضمري إلى النجاشي يخطب عليه أم حبيبة بنت أبي سفيان، و كانت تحت عبيد اللہ بن جحش فزوجها إياه و أصدقها النجاشي من عنده عن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم أربع مائة دينار

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کی طرف سے ام حبیبہ بنت ابو سفیان کے لیے نکاح کا پیغام دیں۔ وہ پہلے عبید اللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں۔ تو نجاشی نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کر دیا اور ان کی طرف سے چار سو دینار مہر بھی خود ادا کیا۔ (المستدرک للحاکم، جلد 4، صفحہ 23، رقم الحدیث: 6771، دار الكتب العلمية، بيروت)

اور چونکہ اس وقت کے حساب سے چار سو دینار، چار ہزار درہم کے برابر تھے، تو اب یوں چار ہزار درہم کہہ لیں یا چار سو دینار کہہ لیں، بات ایک ہی ہے، لہذا اس اعتبار سے روایات میں کوئی اختلاف نہیں۔چنانچہ مراۃ المناجیح میں ہے: ’’اس نکاح کے موقعہ پر خالد ابن سعید ابن عاص کے ذریعہ نجاشی نے بی بی ام حبیبہ کو حضور کی طرف سے پیغام نکاح دیا۔ ابرہہ لونڈی حضرت جعفر ابن ابی طالب اور دوسرے مسلمان نکاح میں شریک ہوئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) کی طرف سے نجاشی نے اور ام حبیبہ کی طرف سے خالد نے خطبہ نکاح پڑھا اور چار سو دینار یعنی چار ہزار درہم اپنی جیب سے نجاشی نے مہر ادا کیا‘‘۔ (مراۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 79، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ میں ارشاد فرماتے ہے: ’’بہتر یہ کہ شوہر اپنی حیثیت ملحوظ رکھے کہ یہ اس کے ذمہ دین (یعنی قرض) ہے، یہ نہ سمجھے کہ کون دیتا ہے کون لیتا ہے، اگر یہاں نہ دیا تو آخرت کا مطالبہ سر پر رہا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی ازواجِ مطہرات و بنات مکرمات کا مہر پانچ سو درہم باندھا، اگر چاہے تو یہ مقدار رکھے کہ سنت ہے‘‘۔ (فتاوی امجدیہ، جلد دوم، صفحہ 144، مکتبہ رضویہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-719

تاریخ اجراء: 23 شوال المکرم 1446ھ / 22 اپریل 2025ء