ہندو یا سِکھ عورت سے نکاح کرنا کیسا؟

غیر مسلم عورت سے نکاح کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کسی ہندو یا سکھ عورت سے مسلمان کا نکاح کرنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مسلمان مرد کا ہندو یا سکھ مذہب کی پیروکار عورت سے نکاح کرنا، ناجائز، گناہ، حرام اور باطل ہے۔اگر معاذ اللہ نکاح کرے گا، تو وہ منعقد ہی نہیں ہو گا۔

مشرکہ سے نکاح کی ممانعت اور حکمتِ الہیہ:

یہ بات ناقابلِ تردید سچائی کی حیثیت رکھتی ہے کہ ”ازدواجی تعلقات“باہمی محبت والفت اور قلبی یگانگت کو چاہتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو نکاح کا بنیادی مقصد ہی پورا نہیں ہو گا اور اگر معاذ اللہ مشرکہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے قلبی تعلقات بڑھائے جائیں تو اِس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ مرد کے دل میں اسلام کی قدر ومنزلت کم اور کفر وشرک کی طرف میلان بڑھتا جائے گا یا کم از کم کفر وشرک سے جیسی نفرت ہونی چاہیے، یقیناً دل اُس سے خالی ہو جائے گا اور انجام یہی نکلے گا کہ معاذ اللہ مرد بھی کفر وشرک میں مبتلا ہو جائے گا۔ اِسی بات کو خدائے حکیم وخبیر نے انتہائی بلیغ اسلوب میں یوں بیان فرمایا:

﴿وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ اُولٰٓىٕكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ﴾

ترجمہ: اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو اور (مسلمان عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ مشرک تمہیں پسندہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (پ 02، البقرة: 221)

غور کیجیے کہ مشرک مرد وعورت کے ساتھ نکاح کو کس قدر سختی سے منع کیا گیا ہے، یعنی صرفِ بیانِ حکم پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ اَوَّلاً مومن مرد اور مومنہ عورت کو جداگانہ خطاب کرکے منع کیا گیا اور پھر حکمتِ شرعیہ بھی بیان فرمائی، نیز انسانی نفس کی ذوق پسندی کو ختم کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں یہ بھی بیان فرما دیا کہ وہ کافر و مشرک مرد وعورت، اگرچہ جاہ و جلال، حسن و جمال، مال واسباب اور حسب ونسب کے اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ ہو، اس کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ومومنہ ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مشرکہ عورت سے شادی کرنا تہذیبی اور تمدنی نقطہِ نظر سے بھی انتہائی سنگین ہے۔ اِس کے اثرات انتہائی مہلک اور تباہ کن ہوتے ہیں، کیونکہ رشتے ناطے کے انسانی زندگی پر اثرات سطحی اور سرسری نہیں، بلکہ انتہائی گہرے ہوتے ہیں۔ اگر آدمی رشتہ بناتے ہوئے اپنے مذہب اور عقیدے کو اہمیت نہ دے، بلکہ صرف حصولِ شہریت( Nationality )، حسن، مال، خاندان یا دنیاوی لالچ کو سامنے رکھ کر نکاح کر بیٹھے، تو یہ بیوقوفانہ حرکت صرف اِسی کو نہیں، بلکہ اِس کی نسل کے ایمان واسلام کو بھی تباہ کر دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جو بدباطن لوگ مسلمانوں میں اسلامی حمیت اور مذہبی غیرت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ سب سے زیادہ کارگر نسخہ یہی اپناتے ہیں کہ اُن کی غیرمسلموں میں شادیاں کرواتے ہیں، جس کی عبرت ناک مثالیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں، لہذا ایک مسلمان کو ایسے حساس معاملے میں ہر گز بے پروا اور متساہِل نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے۔آمین

اوپر پیش کردہ آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:انتہائی افسوس ہے کہ قرآن میں اتنی صراحت و وضاحت سے حکم آنے کے باوجود مسلمان لڑکوں میں مشرکہ لڑکیوں کے ساتھ اور یونہی کافر لڑکوں اور مسلمان لڑکیوں میں باہم شادیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کفارو مسلم اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی طرزِزندگی نیز لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے جہاں اور تباہیاں مچی ہوئی ہیں اور بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے وہیں باہم ایسی حرام شادیوں کے ذریعے زندگی بھر کی بدکاری کے سلسلے بھی جاری و ساری ہیں۔ اس تمام صورتحال کا وبال اُن لڑکوں لڑکیوں پر بھی ہے جو اس میں مُلَوَّث ہیں اور ان والدین پربھی جو راضی خوشی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتے ہیں اور ان حکمرانوں اور صاحب  اختیار پر بھی ہے جو ایسی تعلیم کو رواج دیتے ہیں یا باوجودِ قدرت اس کا اِنسِداد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور یونہی اس کا وبال اُن نام نہاد جاہل دانشوروں، لبرل اِزم کے مریضوں اور دین دشمن قلم کاروں پر بھی ہے، جو اس کی تائید و حمایت میں ورق سیاہ کرتے ہیں۔ (صراط الجنان، جلد 01، صفحہ 341، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

عباراتِ فقہاء:

کافرہ عورت سے نکاح کے متعلق ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 587ھ/ 1191ء) لکھتے ہیں:

منها أن لا  تكون  المرأة  مشركة إذا كان الرجل مسلما، فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى:{ وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ}۔۔۔أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لايحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح

 ترجمہ: مسائلِ نکاح میں سے یہ بھی ضروری ہے کہ مرد کے مسلمان ہونے کی صورت میں عورت مشرکہ نہ ہو، لہذا مسلمان کا مشرکہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اورمشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں “ اصل یہ ہے کہ مسلمان کو کسی کافرہ (غیرکتابیہ)سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں، کیونکہ کافرہ سے رشتہ ازدواج قائم کرنا اور پھر اُس کے ساتھ اختلاط رکھنا، حالانکہ دونوں میں عداوتِ دینی موجود ہو، کسی صورت حصولِ سکون اور باہمی پیار محبت کا سبب نہیں ہو سکتا، حالانکہ باہمی سکون اور محبت مقاصد نکاح کے حصول کے لیے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔(بدا ئع الصنائع، جلد03،کتاب النکاح، صفحہ458،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

ہندو یا سکھ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح باطل ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ / 1921ء) نے لکھا: ”مسلمان عورت کا اُن سے یا مسلمان مرد کا ایسی عورت سے نکاح باطل و حرام ہے۔(فتاوٰی رضویہ، جلد 14، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

دوسرے مقام پر لکھا: ”غیر کتابیہ سے مسلمان مرد کو نکاح حرام ہے۔(فتاوٰی رضویہ، جلد 11، صفحہ 511، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

اہم نوٹ: کتبِ فقہ میں کتابیہ عورت سے نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے، مگر یاد رہے کہ کتابیہ ذمیہ کے ساتھ کراہتِ تنزیہی کے ساتھ جائز ہے، لیکن فی زمانہ دنیا میں ذمی کفار نہیں، سب حربی ہیں اور حربیہ کتابیہ سے نکاح مکروہ تحریمی ہے۔ لیکن یہ حکم شرعی بھی اُس وقت ہے کہ جب وہ عورت واقعی کتابیہ ہو۔ اگر صرف نام کی کتابیہ ہو اور حقیقۃً نیچری اور دہریہ مذہب رکھتی ہو ، جیسے آج کل کے بہت سے عیسائی کہلانے والوں کا حقیقت میں کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ دہریے ہوتے ہیں ، تو ان سے بالکل نکاح ہو ہی نہیں سکتا، چنانچہ ”فتاوٰی امجدیہ“ میں ہے: ”اس زمانہ کے نصاریٰ اب اس قسم کے نہیں ہیں، جو زمانہ سابق میں تھے، آج کل تو بالکل دہریہ و نیچریہ ہیں، لہذا ان کے وہ احکام نہیں جو نصاریٰ کے تھے کہ مسلمان کا نکاح نصرانیہ سے ہو جائے۔“ (فتاوٰی امجدیہ، جلد 02، صفحہ 69، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

کافرہ عورت سے نکاح کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دینی اور معاشرتی خرابیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے لکھا:

سبب تحريم زواج المسلم بالمشركة والمسلمة بالكافر مطلقا كتابيا كان أو مشركا: هو أن أولئك المشركين والمشركات يدعون إلى الكفر والعمل بكل ما هو شرّ يؤدي إلى النار، إذ ليس لهم دين صحيح يرشدهم، ولا كتاب  سماوي  يهديهم إلى الحق، مع تنافر الطبائع بين قلب فيه نور وإيمان وبين قلب فيه ظلام وضلال فلا تخالطوهم و لا تصاهروهم، إذ المصاهرة توجب المداخلة والنصيحة والألفة والمحبة و التأثر بهم، و انتقال الأفكار الضالة، والتقليد في الأفعال والعادات غير الشرعية، فهؤلاء لا يقصرون في الترغيب بالضلال، مع تربية النسل أو الأولاد على وفق الأهواء والضلالات

ترجمہ: مسلمان مرد کے مشرکہ عورت کے ساتھ اور مسلمان عورت کے علی الاطلاق کافر مرد، خواہ وہ کتابی ہو یا مشرک، کے ساتھ نکاح کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مشرک مرد اور عورتیں، کفر اور واصل جہنم کرنے والے اعمالِ شرکے داعی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس باعثِ ہدایت کوئی دینِ حق اور پھر اُس کی طرف راہ نمائی کرنے والی کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، نیز ایسا دل کہ جس میں نورِ ایمان وہدایت ہو، وہ ایسے دل سے طبعی نفرت رکھتا ہے، جس دل میں کفر کی تاریکی اور گمراہی کا بسیرا ہو، لہذا نہ تو اُن کے ساتھ اختلاط کرو اور نہ ان کے ساتھ رشتہ داریاں قائم کرو؛ کیونکہ اُن سے رشتے داریاں بنانا، باہمی تعلق، خیر خواہی، محبت و الفت، اُن سے متاثر ہونے، گمراہ کن افکار کے منتقل ہونے اور غیر شرعی عادات و اعمال کی تقلید کا باعث ہوتی ہیں؛ اس لیے کہ یہ لوگ گمراہی کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات اور گمراہیوں کے مطابق نسل کی تربیت میں کوتاہی نہیں کرتے۔(التفسیر المنیر، جلد 02، صفحہ 292، مطبوعۃ دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9053

تاریخ اجراء: 16 صفر المظفر1446ھ /22 اگست 2024