دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک شخص کے والد صاحب کا انتقال ہوا، تو اس کی والدہ کا نکاح اس شخص کے پہلے سے شادی شدہ چاچو سے کر دیا گیا، اب کیا اس شخص کا نکاح اس چاچو کی پہلی بیوی کی لڑکی سے کیا جا سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں اس شخص کا نکاح اس کے چاچو کی، پہلی بیوی کی بیٹی سے کیا جا سکتا ہے، جبکہ ممانعت کی کوئی اور وجہ مثلا رضاعت یاحرمت مصاہرت وغیرہ نہ ہو کیونکہ دونوں کے والدین الگ الگ ہیں۔
صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ ”ایک شخص کا نکاح ایک بیوہ عورت سے ہوا تھا، اس عورت کا ایک لڑکا اگلے مرد سے ہے اور اب جس مرد سے نکاح کیا، اس مرد کی پہلی عورت سے ایک لڑکی ہے، اب دونوں لڑکے لڑکی باہم نکاح کرنا چاہتے ہیں تو یہ درست ہے یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ”ان دونوں کا باہم نکاح ہوسکتا ہے کہ دونوں کا نہ ایک باپ ہے نہ ایک ماں، قال اللہ تعالیٰ (وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم)۔“ (فتاوٰی امجدیہ، جلد2، صفحہ55، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4374
تاریخ اجراء: 06جمادی الاولی1447 ھ/29اکتوبر2025 ء