بیوی کا ہمبستری سے انکار کرنا گناہ ہے ؟

شوہر کے بلانے پر بیوی کا ہمبستری سے انکار کرنا کس صورت میں گناہ ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

جب شوہر بیوی کو ہمبستری کے لئے کہے اور بیوی انکار کر دے، تو کیا ہر صورت میں وہ گناہ گار ہی ہوگی؟ اور کیا کوئی دن مقرر ہے کہ اتنے دنوں کے بعد ہی شوہر ہمبستری کے لئے کہہ سکتا ہے، یا جب بھی کہے، تب ماننا واجب ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شوہر جب بھی اپنی بیوی کو ہمبستری کے لیے بلائے تو(عذر نہ ہونے کی صورت میں) عورت پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، بلا عذر اس سے انکار نہیں کر سکتی، اگر کرے گی، تو گناہ گار ہوگی۔ نیز اس معاملے میں کوئی خاص مدت مقرر نہیں، کہ شوہر اتنے دنوں بعد ہی کہہ سکتا ہے، بلکہ جب بھی چاہے کہہ سکتا ہے، عورت پر اس کی اطاعت لازم ہوگی۔ حدیث مبارک میں بلا عذر انکار کرنے والی عورت کے بارے میں یہ  وعید بیان کی گئی ہے کہ ایسی عورت پر صبح تک فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ البتہ! اگر بیماری یا کوئی شرعی عذر موجود ہو جیسے عورت حیض یا نفاس سے ہو، یا روزے یا احرام کی حالت میں ہو، تو انکار کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ حیض و نفاس کی حالت میں مرد اپنی بیوی کے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک کے حصے کو بغیر کسی موٹے حائل کے (جس کی وجہ سے جسم کی گرمی محسوس نہ ہو) چھو نہیں سکتا، اور نہ اس حصے کی طرف بشہوت نظر کرسکتا ہے، اتنے حصے کے علاوہ سے کسی بھی طرح کا نفع حاصل کرسکتا ہے، بوس و کنار بھی کر سکتا ہے، اورناف کے نیچے سے گھٹنے کے نیچے تک کے حصے پر موٹا کپڑا لپیٹ کر اسے اپنے بستر پر بلا سکتا ہے، لہذا حیض و نفاس میں عورت اس سے منع نہیں کر سکتی۔

بہر حال یہ عورت کے لیے حکمِ شرعی ہے، مگر مرد کو بھی چاہئے کہ وہ عورت کی صحت، طبیعت اور کیفیت کا خیال رکھے اور اس کی ہمدردی اور آرام کو مدنظر رکھ کر اس تعلق کو قائم کرے۔

شوہر کے ہمبستری کے لئے بلانے پر عورت کے بغیر عذر انکار کرنے سے متعلق صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، مسند احمد، سنن کبری للبیہقی وغیرہ کتب حدیث میں روایت ہے

(واللفظ للاول) ”عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»“

 ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پربلائے اور وہ انکار کرے اور شوہر اس عورت پرناراضی کے ساتھ رات گزارے، تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری، صفحہ595، حدیث: 3237، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بریقہ محمودیہ فی شرح طریقۃ محمدیہ میں ہے

”عن أبي هريرة - رضي الله تعالى عنه - (مرفوعا «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت أن تجيء إليه» إلى فراشه بلا عذر كالحيض والمرض والصوم «فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» ؛ لأنها مأمورة بطاعة زوجها، وعن النووي ليس الحيض عذرا في الامتناع من الفراش؛ لأن له حقا في الاستمتاع بها فوق الإزار“

 ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بغیر عذر جیسے حیض، بیماری، روزہ کے شوہرکے بستر پرآنے سے انکار کرے اور شوہر رات ناراض ہو کر گزارے، تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے ہیں، کیونکہ بیوی کو شوہر کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حیض، شوہر کے بستر پر جانے سے انکار کرنے کا عذر نہیں، کیونکہ(حیض کی حالت میں بھی) شوہر کو تہبند کے اوپر سے بیوی سے نفع لینےکا حق حاصل ہے۔ (بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ، جلد4، صفحہ154، مطبعة الحلبي)

شوہر کے لئے بیوی سے ہمبستری کا کوئی وقت مقرر نہیں، بلکہ ہر وقت اس کو یہ حق حاصل ہے، چنانچہ علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں:

”وفي الطبراني من حديث ابن عباس مرفوعًا في أثنائه: ومن حق الزوج على زوجته أن لا تصوم تطوعًا إلا بإذنه فإن فعلت لم يقبل منها وهذا يدل على تحريم الصوم المذكور عليها وهو قول الجمهور۔۔۔ وقال النووي في شرح مسلم: وسبب هذا التحريم أن للزوج حق الاستمتاع بها في كل وقت وحقه واجب على الفور فلا تفوته بالتطوع ولا بواجب على التراخي“

 ترجمہ: طبرانی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مرفوع حدیث کے درمیان میں ہے: اور شوہر کا اپنی بیوی پر یہ حق بھی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے، پس اگر وہ اجازت کے بغیر رکھے تو اس کا یہ روزہ قبول نہیں۔اور یہ عورت کے لئے(شوہر کی اجازت کے بغیر) نفل روزے کی حرمت پر دلالت کرتا ہے اور یہی جمہور (اکثر) علماء کا قول ہے۔ امام نووی نے شرحِ مسلم میں فرمایا: اور اس حرمت کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کو ہر وقت بیوی سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے، اور اس کا یہ حق بیوی پر علی الفورواجب (یعنی اس کی فوری اطاعت واجب)ہے، لہٰذا بیوی نفل روزے یا ایسی واجب عبادت جو فوراً لازم نہیں، اس کے ذریعے شوہر کے حق کو ضائع نہیں کر سکتی۔ (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، جلد8، صفحہ95، 96، المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں: ”(حدیث پاک میں بیان کردہ وعید اس عورت کے لئے ہے جو) بغیر عذر آنے سے انکار کردے۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ بحالت حیض بھی مرد کے بلانے پر پہنچ جائے کہ حیض میں صحبت حرام ہے نہ کہ بوس و کنار اور ساتھ لیٹنا وغیرہ۔“ (مراۃ المناجیح، جلد5، صفحہ91، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

”ذهب الفقهاء إلى أن للزوج أن يطالب زوجته بالوطء متى شاء إلا عند اعتراض أسباب شرعية مانعة منه كالحيض والنفاس والظهار والإحرام ونحو ذلك، فإن طالبها به وانتفت الموانع الشرعية وجبت عليها الاستجابة۔۔۔وقد عد الذهبي والرافعي والنووي وابن الرفعة والهيتمي وغيرهم امتناع المرأة عن فراش زوجها إذا دعاها بلا عذر شرعي ضربا من النشوز، وكبيرة من الكبائر، وذلك لورود الوعيد الشديد فيه“

 ترجمہ: فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے بیوی سے ہم بستری کا مطالبہ کرے، سوائے اس کے کہ ہمبستری سے مانع کوئی شرعی رکاوٹ موجود ہو، جیسے حیض، نفاس، ظہار، احرام وغیرہ۔ پھر اگر وہ عورت سے اس کا مطالبہ کرے اور شرعی رکاوٹیں نہ ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی بات مانے۔۔۔ امام ذہبی، امام رافعی، امام نووی، امام ابنُ الرِّفعہ، امام ہیتمی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اور دیگر علماء نے شوہرکے بلانے پر عورت کے بغیر کسی شرعی عذر کے شوہر کے بستر سے انکار کرنے کو نافرمانی اور کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، کیونکہ اس بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد44، صفحہ38، دار السلاسل، کویت)

حیض و نفاس میں ناف سے اوپر شوہر  اپنی بیوی سے نفع حاصل کرسکتا ہے، بوس و کنار بھی کرسکتا ہے، چنانچہ

فتاوٰی رضویہ میں ہے ”کلیہ یہ ہےکہ حالتِ حیض و نفاس میں زیرِناف سے زانو تک عورت کے بدن سے بلاکسی ایسے حائل کے جس کے سبب جسمِ عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے، تمتع جائز نہیں یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھونا بلاشہوت بھی جائز نہیں اور اس سے اوپرنیچے کے بدن سے مطلقاً ہرقسم کا تمتع جائز یہاں تک کہ سحقِ ذکر کر کے انزال کرنا۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 4، صفحہ 353، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں تحریرفرماتے ہیں: ”(حیض و نفاس میں) ہم بستری یعنی جماع اس حالت میں حرام ہے۔۔۔ اس حالت میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن سے مرد کا اپنے کسی عُضْوْ سے چھونا، جائز نہیں جب کہ کپڑا وغیرہ حائل(بیچ میں رکاوٹ) نہ ہو، شَہوت سے ہویا بے شَہوت اور اگر ایسا حائل ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوگی تو حَرَج نہیں۔ ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حَرَج نہیں۔ یوہیں بوس وکنار بھی جائز ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 382، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4553

تاریخ اجراء:26 جمادی الثانی1447ھ/18دسمبر2025ء