دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
مجھے یہ پوچھنا تھا کہ کیا میرے چاچو کے بیٹے کا میری بیٹی کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے؟ کیونکہ وہ میری بیٹی کا چاچو ہوا۔ میں نے پہلے بھی کہیں سے پوچھا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ہو سکتا ہے، لیکن وہ تو اس کا چاچو ہوا نا؟ سب کہتے ہیں کہ شادی ہو جائے گی لیکن میرا دل نہیں مان رہا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کوئی اور وجہِ حرمت مثلاً رضاعت وغیرہ نہ ہو تو آپ کے چچا کے بیٹے کا آپ کی بیٹی سے نکاح بالکل جائز ہےکہ وہ آپ کی بیٹی کا حقیقی چچا نہیں، کیونکہ حقیقی چچا وہ ہوتا ہے جو اپنے والد کا حقیقی بھائی ہو، جبکہ وہ آپ کا حقیقی بھائی نہیں، کزن ہے۔ اگر آپ چچا کے بیٹے کو اپنا حقیقی بھائی سمجھتے ہیں تو پھر چچا کی بیٹی بھی آپ کی حقیقی بہن ہونی چاہئے اور چچا کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہونا چاہئے، حالانکہ چچا کی بیٹی سے نکاح کرنا بالکل جائز ہے، تو پتا چلا کہ آپ کے چچا کی اولاد آپ کے حقیقی بہن بھائی نہیں، تو جب چچا کا بیٹا آپ کا حقیقی بھائی نہیں تو پھر آپ کی بیٹی کا حقیقی چچا بھی نہیں۔
قرآن پاک میں اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ)
ترجمہ کنز الایمان: اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو۔ (پارہ05، سورۃ النساء، آیت 24)
امام اہل سنت، امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: "اپنے حقیقی چچا کی بیٹی یا چچا زاد بھائی کی بیٹی۔۔۔ شرعاً حلال ہیں جبکہ کوئی مانع نکاح مثل رضاعت و مصاہرت قائم نہ ہو۔ قال ﷲ تعالٰی: (وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم) اللہ تعالٰی نے فرمایا: محرمات کے علاوہ عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد11، صفحہ413، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب : مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر : WAT-4438
تاریخ اجراء : 22جمادی الاولی1447 ھ/14نومبر2025 ء