
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اس کا رشتہ بھی جہاں طے ہوا ہے، وہ بھی متمول گھرانے والے ہیں، زید نے نکاح اور رخصتی کیلئے یہ شرط رکھی ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی غیر شرعی رسم ادا نہیں کی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں سے کوئی بارات بھی نہیں جائے گی کہ بارات لے کر جانا بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اگرچہ وہ بارات غیر شرعی اقوال وافعال سے پاک ہو۔دلہن کے والد صاحب صرف دلہن اور چند عزیزوں کو مسجد کے قریبی مکان میں لے کر آجائیں، ہم مسجد میں جا کر نکاح کریں گے اور پھر دلہن کے والد صاحب دلہن کو ہمارے گھر چھوڑ دیں گے۔ ہمارے ہاں کے متمول گھرانے اس طرح کی رخصتی کو معیوب سمجھتے ہیں کہ پھر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، اس لئے دلہن والوں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ بارات لے کر ہمارے گھر پرآئیں، اس میں کوئی غیر شرعی افعال نہ ہوں، تب ہم رخصتی کریں گے، جو طریقہ زید نے بتایا ہے اس کے مطابق ہم رخصتی نہیں کرسکتے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا زید کا اس طریقے کی شرط رکھنا درست ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی بھی چیز کو محض اس وجہ سے ناجائز نہیں کہہ سکتے کہ یہ چیز قرآن و حدیث سے صراحتاً ثابت نہیں ہے، کیونکہ کسی فعل کے جائز ہونے کیلئے حدیث پاک سے صراحتاً ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اتنا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث میں اس پر کوئی غیرقابلِ تاویل نہی وارد نہ ہوئی ہو، لہٰذا بارات نہ لے جانے کی وجہ یہ تو بیان نہیں کی جاسکتی کہ حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ فی زمانہ شادی میں جو بارات جاتی ہے ان میں تمام بارات کا غیر شرعی افعال و اقوال سے بالکلیہ خالی ہونا بھی شاذ و نادر ہے، اس اعتبار سے اگر زید بارات لے جانے کے حق میں نہیں ہے تو زید کا مطالبہ درست ہوگا اور اس پر کوئی حکم شرعی عائد نہیں ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ دلہن والوں کا تقاضا پورا کرنے کیلئے، زید اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اپنے گھر والے اور چند قریبی عزیزوں سمیت اتنے افراد لے کر جائے کہ جسے بارات کا نام دیا جاسکے اور وہ غیر شرعی افعال و اقوال سے پاک ہو، تاکہ دلہن والوں کا تقاضا بھی پورا ہو جائے اور زید جو غیر شرعی افعال و اقوال سے بچنا چاہتا ہے وہ مقصد بھی حتی المقدور پورا ہو جائے۔
لوگوں کے رسم و رواج میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ جب تک کسی خلافِ شرع کام کا ارتکاب نہ ہو تب تک لوگوں کی جائز رسوم میں ان سے اعتدال کے ساتھ موافقت کرنا بہتر ہے۔
حجۃ الاسلام امام محمد بن محمدغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ولكل قوم رسم ولا بد من مخالقة الناس بأخلاقهم كما ورد فی الخبر لا سيما إذا كانت أخلاقاً فيها حسن العشرة والمجاملة وتطييب القلب بالمساعدة وقول القائل ان ذلك بدعة لم يكن فی الصحابة فليس كل ما يحكم باباحته منقولاً عن الصحابة رضی الله عنهم وإنما المحذور ارتكاب بدعة تراغم سنة مأثورة ولم ينقل النهی عن شیء من هذا والقيام عند الدخول للداخل لم يكن من عادة العرب بل كان الصحابة رضی الله عنهم لا يقومون لرسول الله صلى الله عليه و سلم فی بعض الأحوال، كما رواه أنس رضی الله عنه ولكن اذا لم يثبت فيه نهی عام فلا نرى به بأساً فی البلاد التی جرت العادة فبها باكرام الداخل بالقيام فان المقصود منه الاحترام والاكرام وتطييب القلب به، وكذلك سائر أنواع المساعدات إذا قصد بها تطييب القلب واصطلح عليها جماعة فلا بأس بمساعدتهم عليها بل الأحسن المساعدة الا فيما ورد فيه نهی لا يقبل التأويل“
ترجمہ: ہرقوم کی ایک رسم ہوتی ہے، لوگوں کے افعال کی موافقت لازمی ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا، خصوصا جبکہ ایسے افعال ہوں کہ اس میں حسنِ معاشرت وحسن سلوک ہو اور ان کی موافقت میں دل کو خوش کرنا پایا جائے۔کسی کا یہ کہنا کہ یہ بدعت ہے کہ صحابہ کرام میں ایساعمل نہیں تھا تواس کا جواب یہ ہے کہ بہت سارے ایسے مباح و جائز کام ہیں جو صحابہ سے منقول نہیں ہیں۔ناجائز ایسی بدعت ہے جو سنت ماثورہ کے خلاف ہو، جبکہ مذکورہ کاموں میں سے کسی بھی کام کے متعلق نہی وارد نہیں ہے، کسی کے آنے پر، آنے والے کیلئے کھڑے ہونے کا رواج عرب کی عادات میں سے نہ تھا، بلکہ بعض احوال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت، عدمِ قیام کی حالت میں ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، لیکن جب اس میں کوئی نہی وارد نہیں ہے تو جہاں عرف و عادت ہے، وہاں آنے والے کے اکرام کیلئے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس سے مقصود احترام و اکرام اور دل کو خوش کرنا ہے، اسی طرح تمام افعال میں موافقت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ موافقت کرنا بہترین ہے، جو افعال لوگوں کی عادت میں شامل ہوچکے ہوں، جبکہ اس سے مقصود دل کو خوش کرنا ہو، سوائے ان افعال کے جن میں ایسی نہی وارد ہوئی ہو جس میں تاویل نہ ہوسکتی ہو۔ (احیاء علوم الدین، جلد2، صفحہ 426، مطبوعہ بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”علمائے محققین مسلمان کا دل رکھنے کو رعایتِ آداب اور ترک ِمکروہات پر بھی مقدم جانتے اور ان کے رسوم و عادات میں مخالفت کو مکروہ و باعث شہرت مانتے ہیں، ولہذا تصریح فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی نہی صریح، غیرقابلِ تاویل نہ آئی ہو، عادات ِ اناس میں موافقت ہی کرکے ان کا دل خوش کیا چاہیے اگرچہ وہ فعل بدعت (قرآن و حدیث سے صراحتاً ثابت نہ)ہو۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ636، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0085
تاریخ اجراء: 23 ربیع الاول 1447 ھ/ 25 ستمبر 2025ء