نکاح کے کئی سال بعد رخصتی ہو تو دوبارہ نکاح کا حکم

نکاح کے کئی سال بعد رخصتی ہو تو کیا دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

نکاح کے کئی سال بعد رخصتی ہو تو کیا دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر نکاح کو ختم کرنے والی کوئی چیزنہ پائی گئی ہو تو پہلا نکاح کافی ہے، محض لمباعرصہ دور رہنے کی وجہ سے دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں۔ ہاں! احتیاطادوبارہ نکاح کرناچاہیں تواس میں حرج نہیں بلکہ احتیاطا نکاح ویسے بھی وقتا فوقتا کرتے رہنا چاہیے، اور اس کے لیے مہر رکھنا ضروری نہیں۔

رد المحتار میں ہے

”والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم و يجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير“

 ترجمہ: اور احتیاط یہ ہے کہ جاہل شخص روزانہ تجدید ایمان کرے اور ہر مہینے میں ایک یا دو مرتبہ اپنی بیوی سے دو گواہوں کے سامنے تجدید نکاح بھی کرے کیونکہ غلطی اگرچہ مرد سے صادر نہ ہو لیکن عورتوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ (رد المحتار، جلد1، صفحہ 42، مطبوعہ: بیروت)

احتیاطاً تجدید نکاح کے متعلق "کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب" کتاب میں ہے "اگر با آسانی گواہ دستیاب ہوں تو میاں بیوی توبہ کر کے گھر کے اندر ہی کبھی کبھی احتیاطاً تجدید نکاح کی ترکیب بھی کر لیا کریں۔ ماں، باپ، بہن بھائی اور اولاد وغیرہ عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت نکاح کے گواہ بن سکتے ہیں۔ احتیاطی تجدیدِ نکاح بالکل مفت ہے اس کے لئے مہر کی بھی ضرورت نہیں۔" (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 627، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

رد المحتار میں ہے

”لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية“

 ترجمہ: اگر اس نے احتیاطاً تجدید نکاح کیا تو بلا اختلاف اس پر مہر کی زیادتی لازم نہیں ہو گی جیسا کہ بزازیہ میں ہے۔ (رد المحتار، جلد3، صفحہ113، مطبوعہ: بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4259

تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1447 ھ/23ستمبر 2520 ء