
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا میاں بیوی میں سے کوئی ایک بے نمازی ہو جائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جان بوجھ کر نماز چھوڑنا سخت ناجائز وحرام اور گناہ کبیرہ ہے لیکن کفر نہیں ہے جبکہ فرض نمازکی فرضیت کا انکارنہ کرے، اسے ہلکااور بے قدر نہ جانے اور قضاکرنے کو حلال نہ سمجھے، لہذا اس کی وجہ سے نکاح بھی نہیں ٹوٹے گا۔
مومن کسی گناہ کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مومن کسی کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا ایسی جگہ نصوص کو علی اطلاقہا کفر و شرک مصطلح پر حمل کرنا اشقیائے خوارج کا مذہب مطرود ہے۔" (فتاوی رضویہ،جلد 21، صفحہ 131، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”اور اس طرف (یعنی تارک نماز کافر نہیں) بحمداللہ نصوص شرعیہ سے وہ دلائل ہیں جن میں اصلاً تاویل کو گنجائش نہیں، بخلاف دلائل مذہب اول (یعنی تارک نماز کافر ہے) کہ اپنے نظائر کثیرہ کی طرح استحلال و استخفاف و جحود و کفران و فعل مثل فعل کفار وغیرہا تاویلات کو اچھی طرح جگہ دے رہے ہیں یعنی فرضیتِ نماز کا انکار کرے یا اُسے ہلکا اور بے قدر جانے یا اُس کا ترک حلال سمجھے، تو کافر ہے یا یہ کہ ترکِ نماز سخت کفرانِ نعمت وناشکری ہے۔
کماقال سیدنا سلیمٰن علیہ الصلاۃ و السلام لیبلونی ء اشکر ام اکفر
جیسا کہ سیدنا سلیمٰن علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا ”تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار بنتا ہوں یا ناشکرا“ یا یہ کہ اُس نے کافروں کا سا کام کیا
الی غیر ذلک مماعرف فی موضعہ ومن الجادۃ المعروفۃ ردالمحتمل الی المحکم لاعکسہ کمالایخفی فیجب القول بالاسلام
اس کے علاوہ اور بھی توجیہات ہیں جن کی تفصیل ان کے مقام پر ملے گی، اور معروف راستہ یہی ہے کہ محتمل کو محکم کی طرف لوٹایا جائے، نہ کہ اس کا اُلٹ، جیسا کہ ظاہر ہے، اس لیے اسلام کا ہی قول کرنا پڑے گا۔" (فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صفحہ 105- 106، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4246
تاریخ اجراء: 15ربیع الاول1447ھ/09ستمبر2025ء