
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سونے کی چین جس کی مالیت 65 ہزار ہو، کیا اسے مہر میں لکھوا سکتے ہیں؟ اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شریعت مطہرہ میں مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس کی قیمت، یا اتنی مالیت کی کوئی چیز ہے، اور زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس سے زیادہ باہمی رضامندی سے جتنا چاہیں مقرر کرسکتے ہیں۔ تو سوال میں بیان کردہ سونے کی چین (جس کی مالیت پاکستان میں موجودہ ریٹ کے مطابق دو تولہ ساڑھے سات ماشے چاندی سے زیادہ ہے) کو باہمی رضامندی کے ساتھ حق مہر کے طور پر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایجاب و قبول کے وقت حق مہر کا ذکر کرتے ہوئے اس سونے کی چین کا ذکر کیا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"اقل المہر عشرۃ دراھم مضروبۃ او غیر مضروبۃ۔۔۔ وغیر الدراھم یقوم مقامھا باعتبار القیمۃ"
ترجمہ: مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے خواہ یہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے، اور درہم کے علاوہ کوئی چیز ہو تو وہ قیمت کے اعتبار سے ان دراہم کے قائم مقام ہوگی۔)فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 302، مطبوعہ: کوئٹہ(
فتاوی رضویہ میں ہے ”مہر را در شرع مطہر جانب کمی حدے معین ست یعنی دہ درہم اما جانب زیادت ہیچ تحدید نیست ہرچہ کہ بستہ شود ہماں قدر بحکم شرع محمد لازم آید صلی ﷲتعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ واصحابہ وبارک وسلم“ ترجمہ: شریعت پاک میں مہر کی کم از کم مقدار دس درہم مقرر ہے لیکن زیادہ سے زیادہ مقدار نہیں بلکہ جتنا بھی مقرر کردیا جائے وُہ شریعت محمدی میں لازم ہوگا صلی ﷲتعالٰی علیہ وعلی آلہٖ واصحابہ وبارک وسلّم۔ (فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ123، 124، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4238
تاریخ اجراء: 25ربیع الاول1447 ھ/19ستمبر 2520 ء