دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی مرد اپنی بیوی کی بہن یعنی سالی کی بیٹی (جو عرفِ عام میں بھانجی یا ماسا کہلاتی ہے) کے ساتھ بدکاری کر لے، تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور اس کی اپنی بیوی کے نکاح پر کیا اثر پڑے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
زنا گناہِ کبیرہ اور سخت حرام کام ہے، لہذا اگر کوئی شخص اپنی سالی کی بیٹی سے بدکاری کرے، تو وہ سخت گناہ گار ہوگا اور اس پر لازم ہوگا کہ اس گندے فعل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرے، اور آئندہ اس عورت سے دور رہے، مگر اس سے نکاح نہیں ٹوٹے گا، اور نہ اس کی بیوی اس پر حرام ہوگی، اس لئے کہ جس عورت کے ساتھ زناکیاجائے، اس کے اصول وفروع، زانی پرحرام ہوتے ہیں، جبکہ صورت مسئولہ میں زانی کی بیوی، اس کی سالی کی بیٹی (جس سے اس نے زنا کیا ہے، اس) کےاصول و فروع میں سے نہیں ہے۔
زنا کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ- وَ سَآءَ سَبِیْلًا﴿۳۲﴾
ترجمہ کنزالعرفان: اور بد کاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔ (القرآن، پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل، آیت: 32(
صحیح البخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رايتُ الليلة رجلين اتيانی فاخذا بيدي فاخرجانی الى الارض المقدسة۔۔۔ فانطلقنا الى ثقبٍ مثل التنّور اعلاه ضيق و اسفله واسعٌ يتوقّد تحته نارٌ فاذا اقترب ارتفعوا حتى كاد ان يخرجوا فاذا خمدت رجعوا فيها و فيها رجال و نساء عراةٌفقلتُ: من هذا؟ قالا:۔۔۔ و الذی رايتَه فی الثقب فهم الزناۃ
ترجمہ: میں نے رات کودو مرددیکھے،جو میرے پاس آئے اور مجھےمقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے کہ) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے،جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ اورنیچےسےکشادہ ہے،اس میں آگ جل رہی ہے، اوراس آگ میں کچھ برہنہ مرد اور عورتیں ہیں، جب آگ بھڑکتی ہے،تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں،یہاں تک کہ نکلنے کے قریب ہو جاتے ہیں، اور جب بجھتی ہے تو وہ اندر چلے جاتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ فرشتوں نے کہا: جو لوگ آپ نے سوراخ میں دیکھ ،تو وہ زناکرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری، صفحہ 256، حدیث: 1386، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ: "زیدنے اپنی سالی سے زنا کیا اور اس کو حمل بھی رہ گیا تو کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی؟ "تو جواب میں تحریر فرمایا: ”معاذ اللہ یہ فعل بیشک حرام ہے مگر اس کی وجہ سے نکاح نہیں ٹوٹا، وہ بدستور اس کی زوجہ ہے۔ زنا سے صرف چار حرمتیں ثابت ہوتی ہیں:مزنیہ زانی کے اصول و فروع پرحرام ہوجاتی ہے اور زانی پر مزنیہ کے اصول و فروع حرام، بہن نہ اصول میں ہے نہ فروع میں تو اس کی حرمت کی کوئی وجہ نہیں۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 2، صفحہ 72، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4467
تاریخ اجراء: 03 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 25 نومبر 2025ء