دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری شادی کی عمر ہو چکی ہے لیکن میں شادی نہیں کر پا رہا کیونکہ آج کل شادیوں میں ضرورت سے زیادہ خرچ اور رسم و رواج کی پیروی عام ہو چکی ہے، میرے گھر والے چاہتے ہیں کہ میں بھی انہیں رسموں کو مان کر شادی کروں، لیکن میری خواہش ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق مسجد میں سادہ اور آسان طریقے سے نکاح کروں، میری اس بات سے میرے گھر والے متفق نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پہلے بڑا گھر بناؤ اور مالی طور پر کامیاب ہو جاؤ، پھر شادی کرنا، اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ پہلے نکاح کرو، پھر اللہ تعالیٰ رزق عطا فرماتا ہے، میں فتنے سے بچنا چاہتا ہوں اور اب تک اپنی حفاظت کی ہے، لیکن میرے گھر والے اس بات کو سمجھ نہیں رہے، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر اسلامی نقطہ نظر سے رہنمائی فرمائیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نکاح اگر شریعت کے مطابق کیا جائے تو شرم و حیا کے حُصُول کے ساتھ ساتھ فراخ دستی اور خوشحالی کا سبب بھی ہے، جس کاثبوت حدیث پاک سے ملتاہے، نیزحدیث پاک کے مطابق آسان اور برکت والا نکاح وہ ہے، جس میں مشقت کم ہو یعنی حق مہر اور بقیہ اخراجات کم ہو ں، مگر افسوس! فی زمانہ شادیوں میں محض ناموری کے لیے لاکھوں لاکھ روپے خرچ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، مَعَاذَ اللہ لوگ اس کے لئے سُودی قرضہ لینے سے بھی نہیں شرماتے، لاکھوں روپے قرض لے کر شادی تو ہوجاتی ہے مگر دولہا بےچارہ سالہا سال قرض ہی اُتارتا رہتا ہے۔ اللہ پاک مسلمانوں کو عقل سلیم عطا کرے۔
لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی یادرہے کہ !نکاح کے لیے عورت کےمہرو نان نفقہ (کھانے پینے، کپڑے اور رہائش دینے) وغیرہ پر قدرت ہونابھی ضروری ہے(جس کی تفصیل بہارشریعت کے حصہ نمبر 8میں دیکھی جاسکتی ہے)، یہی وجہ ہے کہ اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تومکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر آپ مہر و نان نفقہ وغیرہ کی قدرت رکھتے ہیں، تو والدین کو پیار محبت اور حسن اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے عرض کریں اور ان سے مشورہ کر کے کہیں اچھا رشتہ تلاش کریں، پھر شادی کر لیں۔
یاد رہے! اس معاملے میں والدین سے غصہ ہونے یا ترش لہجے میں بات کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے، شریعت مطہرہ نے تو والدین کے لئے اف تک کے الفاظ کہنے سے منع کیا ہے۔
نکاح رزق حلال میں برکت کا ایک بہترین وسیلہ ہے، چنانچہ جامع صغیر میں علامہ مولانا جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 911ھ) حدیث پاک نقل فرماتے ہیں:
اِلْتَمِسُوا الرِّزْقَ بِالنِّكَاحِ
یعنی: نکاح (شادی) کے ذریعے رزق تلاش کرو۔
اس حدیث پا ک کی شرح کرتے ہوئے علامہ عبد الرؤوف مناوی علیہ الرحمہ (متوفی 1031ھ) فرماتے ہیں:
ای التزوج فانہ جالب للبرکۃ جار للرزق موسع اذا صلحت النیۃ
یعنی: جب اچھے مقصد کے لیے شادی کی جائے تو وہ نکاح برکت اور رزق میں وُسعَت کا سبب بنتا ہے۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، جلد 2، صفحہ 157، حدیث: 1567، مطبوعہ: مصر)
مصنف عبد الرزاق، المعجم الاوسط، صحیح ابن حبان وغیرہ کتب احادیث میں مروی ہے
( اللفظ للاول) أن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم قال: خير النكاح أيسره
ترجمہ: حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہترین نکاح وہ ہے جس میں زیادہ آسانی ہو۔ (مصنف عبد الرزاق، جلد 6، صفحہ 178، حدیث: 10412، طبع: بیروت)
مسند احمد میں ہے
أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، قال: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔(مسند احمد، جلد 41، صفحہ 75، حدیث: 24529، طبع: مؤسسۃ الرسالۃ)
اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے مراٰۃ المناجیح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”یہ کلمہ نہایت جامع ہے یعنی جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے، مہر بھی معمولی ہو، جہیز بھاری نہ ہو، کوئی جانب مقروض نہ ہو جائے، کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو، اللہ کے توکل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے، ایسی شادی خانہ آبادی ہے، آج ہم حرام رسموں، بیہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہائے بربادی بنا لیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اس حدیث پاک پر عمل کی توفیق دے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 11، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
مہرو نان نفقہ پرقدرت کے حوالے سے در مختار میں ہے
(و يكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية و هذا إن ملك المهر و النفقة۔۔۔ (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح ۔۔۔(حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر و نفقة۔۔۔ (و مكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك
ترجمہ:غلبہ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کئے بغیر زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو نکاح کرنا فرض ہے، نہایہ، اور یہ اس صورت میں ہے جب مہر و نفقہ پر قادر ہو،اور حالت اعتدال یعنی وطی،مہر اور نفقہ پر قادر ہونے کی صورت میں نکاح کرنا اصح قول کے مطابق سنت مؤکدہ ہےاور ظلم میں پڑنے کا خوف ہو تو مکروہ ہے اور اگر اس کا یقین ہو تو حرام ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے
(قوله: و هذا إن ملك المهر و النفقة) هذا الشرط راجع إلى القسمين أعني الواجب و الفرض
ترجمہ: (مصنف کا قول: یہ اس صورت میں ہے جب مہر و نفقہ پر قادر ہو) یہ شرط دونوں قسموں یعنی واجب و فرض کی طرف راجع ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 4، ص 72، 73، 74،مطبوعہ: کوئٹہ)
بہار شریعت میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ( متوفی 1367ھ) فرماتے ہیں: ”شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو معاذ اﷲ اندیشۂ زنا ہے اور مہر ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب۔يوہيں جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اُٹھنے سے روک نہیں سکتا یا معاذ اللہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تونکاح واجب ہے۔۔۔ اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تومکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔(بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ 7، صفحہ5، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4451
تاریخ اجراء: 27 جمادی الاولٰی 1447ھ / 19 نومبر 2025ء